Bharat Express

Asaduddin Owaisi on Worship Act: اسدالدین اویسی نے اٹھایا بڑا قدم، پلیسیزآف ورشپ ایکٹ کی حمایت میں سپریم کورٹ میں داخل کی عرضی

آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے سربراہ اسدالدین اویسی نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کومنسوخ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسے منسوخ کرنے سے ملک کا ماحول خراب ہوگا۔

اے آئی ایم آئی ایم کے سربراہ اسدالدین اویسی۔ (فائل فوٹو)

نئی دہلی: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے سربراہ اسدالدین اویسی نے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کی حمایت میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے، جس پرسپریم کورٹ میں 2 جنوری کو سماعت ہوگی۔ اسدالدین اویسی نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کومنسوخ نہیں کیا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اسے منسوخ کرنے سے ملک کا ماحول خراب ہوگا۔ وہیں اسدالدین اویسی نے سپریم کورٹ کے گزشتہ حکم کے بعد کہا تھا کہ اب امید ہے کہ ملک میں فساد نہیں ہوں گے۔

 

آپ کوبتادیں کہ گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ جب تک سپریم کورٹ معاملے کی سماعت کررہا ہے، تب تک نچلی عدالتوں میں نہ توکوئی مؤثرحکم جاری کی جاسکے گی اورنہ ہی سروے سے متعلق کوئی حکم دیا جاسکے گا۔ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ آگے کوئی نیا کیس بھی درج نہیں ہوگا۔

اسدالدین اویسی سے پہلے مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی، مہاراشٹرکے رکن اسمبلی جتیندرستیش اوہاڈ، منوج جھا سمیت دیگرنے پلیسیزآف ورشپ ایکٹ 1991 کی حمایت میں عرضی داخل کرچکے ہیں جبکہ پلیسیزآف ورشپ ایکٹ، 1991 کے خلاف وشوبھدرپجاری پروہت مہاسنگھ، ڈاکٹرسبرامنیم سوامی، اشونی کماراپادھیائے، کرونیش کمارشکلا اورانل ترپاٹھی نے داخل کی ہے۔ دوسری طرف گیان واپی مسجد انتظامیہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ عبادت گاہوں کے قانون کوغیرآئینی قراردینے کے درخواست گزارکے مطالبے کے نتائج سنگین اوردوررس ہوں گے۔

درخواست گزار نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اس طرح کے کئی مقدمات میں دائرسوٹ کا فریق ہےاوراسٹیک ہولڈر ہے۔ ان کی جانب سے دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ 1991 کے ایکٹ کی دفعہ 3 اور 4 کے تحت ممانعت کے باوجود مسجد کوہٹانے کا دعوی کرتے ہوئے متعدد مقدمات دائرکئے گئے ہیں اور وہ ان تمام معاملات میں فریق ہیں۔ ایکٹ کے سیکشن 3 کے مطابق کسی بھی عبادت گاہ کو کسی دوسری عبادت گاہ میں تبدیل کرنے پرپابندی ہے۔ سیکشن 4 کہتا ہے کہ تمام عبادت گاہوں کی مذہبی نوعیت وہی رہے گی، جو 15 اگست 1947 کوتھی۔ پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت نے 1991 میں عبادت گاہوں کا قانون 1991 بنایا تھا۔ اس قانون کے ذریعے کسی بھی مذہبی مقام کی نوعیت کا تعین کرنے کے لیے قواعد بنائے گئے ہیں، چاہے وہ مسجد، مندر، چرچ یا گرودوارہ ہو۔ سبھی کے لئے ضوابط بنائے گئے ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read