حضرت موسیٰ اور حضرت محمد ﷺ کی سرزمین ایک بار پھر خون سے سرخ ہو گئی ہے۔ ویسے اس خطے کے لیے پرتشدد تصادم کوئی نئی بات نہیں لیکن اس بار ظلم کی حدیں پار ہوگئیں ہیں، مظالم کی انتہا دیکھی گئی اور پوری دنیا انسانیت کے قتل کی گواہ بن گئی۔ اسرائیل سے آنے والی تصاویر نے انتہائی سخت دل لوگوں کے بھی دل توڑ دیے۔ اچانک حماس کے جنگجوؤں کی ایک فوج نے غزہ کی پٹی سے حملہ کیا اور اس سے پہلے کہ اسرائیل سنبھلتا، اس نے ایک بڑا زخم دیا۔ حماس کے دہشت گردوں نے اسرائیلی مردوں، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں پر جس بربریت کا مظاہرہ کیا اس نے انسانیت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل کو حیران کر دیا۔ اسرائیل میں دراندازی 5 ہزار سے زائد راکٹوں کی بارش کے درمیان پیرا گلائیڈنگ کے ذریعے فضائی اور سمندری راستے سے کی گئی۔ یہ حملہ یہودیوں کے تہوار کے دن کیا گیا۔ حماس کے دہشت گردوں نے گاؤں سے لے کر شہروں تک ہر جگہ قتل عام کیا۔ حماس کی اس پوری غیر انسانی کارروائی کے دوران اسرائیل کا دفاعی نظام تباہ ہوتا دکھائی دیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس جنگ میں اب تک 3 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں فریق ایک دوسرے کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ اس بڑے پیمانے پر ہونے والے حملے سے واضح ہے کہ حماس جیسی دہشت گرد تنظیم اپنے طور پر اتنا بڑا حملہ نہیں کر سکتی۔ یقیناً اس حملے کے پیچھے کوئی بڑی طاقت ہے۔ تو کیا وہ بڑی طاقت ایران ہے؟ سفارتی ماہرین اصل نام اپنی زبان پر نہیں لانا چاہتے۔ کیونکہ، ایران کو بھی استعمال کرنے والا ایک ملک ہے جو حماس کے ذریعے اسرائیل اور امریکہ کو سادھنے میں مصروف ہے۔ یہ ملک روس ہے یا پھر چین؟ سوال یہ ہے کہ کیا حماس کا استعمال روس یا چین نے اپنے فائدے کے لیے کیا؟ کیا حماس سے اسرائیل پر حملہ کروا کر روس یا چین اپنے مفادات کو پورا کرنا چاہ رہے ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین جنگ میں یورپی یونین، امریکہ سمیت نیٹو اور بعض دیگر ممالک کی جانب سے یوکرین کی مدد کرنا صدر پوتن کو ناگوار گزرا ہے۔ امریکہ کی وجہ سے ہی یوکرین جیسا چھوٹا سا ملک روس جیسے بڑے ملک کامقابلہ تقریباً پونے دو سال سے کر رہا ہے۔ اگرچہ روس اب بھی یوکرین کی مقبوضہ زمینوں پر قابض ہے لیکن اسے اب تک بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس امریکہ کے خلاف ایک ایسا محاذ بنانے کی کوشش کر رہا ہے جو عالمی نظام میں سپر پاور امریکہ کی حیثیت کو کم کر سکے۔ اس محاذ میں روس، ایران، چین، شمالی کوریا جیسے ممالک شامل ہیں۔ شبہ ہے کہ روس نے ایران کے ذریعے نہ صرف حماس کو اکسایا بلکہ فوجی مدد بھی فراہم کی تاکہ وہ اسرائیل پر بڑا حملہ کر سکے۔
اسرائیل پر حماس سے حملہ کر وانے کے پیچھے روس کا ہاتھ ہونے کی بات بھی کہی جا رہی ہے، کیونکہ اسرائیل نے چند روز قبل یوکرین کی فوجی مدد کا اعلان کیا تھا۔ اس بات سے روس کافی ناراض تھا۔ یہاں تک کہ سابق روسی صدر اور روسی سلامتی کونسل کے نائب چیئرمین دمتری میدویدیف نے اسرائیل کو نتائج کا سامنا کرنے کی دھمکی دی تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کا محاذ کھولنے سے امریکہ کی توجہ بٹ جائے گی اور وہ یوکرین پر پوری طرح توجہ نہیں دے سکے گا جس سے روس کو کچھ راحت ملے گی۔
عام طور پر دہشت گردانہ حملوں کی مذمت میں پیچھے نہیں رہنے والے روس نے حماس کے حملے اور غیر انسانی رویے کی مذمت نہ کرتے ہوئے انتہائی معتدل ردعمل کا اظہار کیا۔ برطانوی فوج کے سابق کرنل رچرڈ کیمپ نے بھی کہا ہے کہ صدر پوتن نیٹو سے براہ راست محاذ آرائی کے بجائے آذربائیجان-آرمینیا، سربیا-کوسوو، مغربی افریقہ اور اب اسرائیل-حماس کو لڑا کر یوکرین سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ویسے یوکرین کی 110 ارب ڈالر کی مدد کر چکے امریکہ اور تقریباً 76 ارب ڈالر کی مدد کر چکے یورپی یونین کو اب یوکرین بحران تھکانے لگا ہے۔ یورپی یونین میں شامل ہنگری جیسے ممالک بھی یوکرین کو مالی امداد دینے سے گریز کرنے لگے ہیں۔ روس پر 11 قسم کی پابندیوں نے خود یورپی یونین کی مالی حالت پر دباؤ بڑھا دیا ہے۔ کئی ممالک اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے پر مجبور ہیں۔ ایسے میں اسرائیل حماس جنگ میں مالی مدد کے لیے ایک اور دباؤ ان کی حالت کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ لیکن، اس سے نہ امریکہ بچ سکتا ہے اور نہ ہی یورپی یونین۔
گیس کی فراہمی اور خام تیل کے لیے روس پر منحصر یورپی یونین روس پر پابندیوں کی پاسداری میں سختی سے قائم نہیں رہ سکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے روس سے ہوئے تیل کے معاہدے پر جب اس نے آنکھیں دکھائی تو یورپی یونین کو ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔ ان حالات میں سفارت کاری کے ماہرین کا خیال ہے کہ حماس کے حملے کو روس، چین اور ایران کی مشترکہ حمایت حاصل ہے تاکہ ایک اور محاذ کھول کر امریکہ اور یورپی یونین پر معاشی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ اس کا فائدہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کو کمزور کرنے کی صورت میں بھی مل سکتا ہے۔
گزشتہ کچھ وقت سے اسرائیل کے کئی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں بہتری آرہی تھی۔ ایسے میں عرب اسرائیل معاہدے (Abraham Accords) کو تباہ کرنا حماس کے حملے کا مقصد لگتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت اسرائیل کے مختلف ممالک جیسے متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش کے ساتھ دو طرفہ معاہدے ہوئے ہیں۔ ان میں سفارتی اور اقتصادی تعلقات کو معمول پر لانے کے اعلانات بھی شامل ہیں۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات بھی خوشگوار ہو رہے تھے۔ یہ معاہدے وسطی ایشیا اور دنیا بھر میں امن کو برقرار رکھنے اور باہمی تعلقات کو مضبوط بنانے کی اہمیت کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ حماس کے حملے کی وجہ سے فلسطینیوں کی جدوجہد کمزور پڑ گئی ہے۔ اپنی سرزمین کو دوبارہ حاصل کرنے اور آزادی اور خودمختاری حاصل کرنے کا ان کا ہدف اس وحشیانہ واقعے کے بعد بہت دور ہو گیا ہے۔ حماس کے اسرائیل پر حملے سے اسلامی ممالک حیران ہیں۔ مستقبل میں اسلامی ممالک کی گول بندی امریکہ، یورپ اور اسرائیل کے کہنے پر نہ ہو، یہ چین اور روس کی حکمت عملی ہے۔ ساتھ ہی ترکی کی خلافت کی شکل کو زندہ کرنا ان کا مقصد ہے تاکہ وہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کو کمزور کرنے کے ساتھ ساتھ خود کو مضبوط کیا جا سکے۔
ان سب کے درمیان اسرائیل کا جوابی حملہ جاری ہے۔ لیکن کیا محض غزہ پر قبضہ کرنے سے اسرائیل کا انتقام پورا ہوجاتا ہے، اس کی انا کی تسکین ہو جاتی ہے اور مقامی سیاست کی ضروریات بھی پوری ہو جاتی ہیں؟ ایسا کرتے ہوئے حماس کے ساتھ فلسطینی عوام کا خواہ کتنا ہی بڑا قتل عام کیوں نہ ہو جائے، وہ اسرائیل کے لیے کوئی بڑا مدعا نہیں ہوگا۔ لیکن، س کا ردعمل عرب دنیا میں ضرور ہوگا۔ اس کا ردعمل انہیں متحرک کر دے گا اور یہ تحریک اب امریکی سرپرستی میں نہیں رہے گی۔ حماس کے حملے کا یہی مقصد ہے اور اس میں فلسطین کا کوئی مفاد پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
بہرحال، حماس کے اس حملے نے فلسطینیوں کی جدوجہد کو ایک بے مقصد اور نہ ختم ہونے والے تنازع میں بدل دیا ہے۔ فلسطینی ہی اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور مستقبل میں بھی بھگتنا پڑے گا۔ لیکن، کیا اس سے اسرائیل مضبوط ہوگا؟ کیا اسرائیل کا چیلنج کمزور ہو جائے گا؟ ان سوالات کے جوابات آسان نہیں ہیں۔ حماس کو مہرہ بنانے والے ممالک دراصل اسرائیل کو عرب ممالک سے الگ تھلگ کرنے کی حکمت عملی پر چل رہے ہیں۔ ایسا اس لیے تاکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی تسلط کو کمزور کیا جا سکے۔
دہشت گردی پوری دنیا کے لیے خطرہ ہے اور اس کی کسی بھی شکل کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ یہ مقصد بھارت کو امریکہ اور یورپ کے ساتھ ساتھ اسرائیل سے بھی جوڑتا ہے۔ لیکن، دہشت گردی کو دیکھنے کے اس انداز پر پوری دنیا میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ طالبان کی دہشت گردی اس کی بڑی مثال ہے۔ طالبان آج بھی بھارت کے خلاف دہشت گردی کو شہ دینے میں پاکستان کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ اگر حماس کے حملے کو ردعمل سمجھنے والا طبقہ ہے تو اسرائیل کے ردعمل کو اپنا حق سمجھنے والا طبقہ بھی اس زمین پر ہے۔ جائز و ناجائز کا سوال اس گول بندی میں کہیں کھو گیا ہے۔
روس یوکرین جنگ کے بعد دنیا کی دونوں سپر پاورز کی حیثیت میں کمی آئی ہے۔ چین ایک نئی سپر پاور بن کر ابھرا ہے۔ لیکن، یہ حتمی سچائی نہیں ہے۔ ہندوستان جہاں کھڑا رہے گا، سپر پاور وہی ہوگا۔ بھارت نے اپنا ہدف مقرر کر لیا ہے۔ وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔ یعنی ہندوستان امریکہ اور یورپ کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس سرزمین کو خالی کرنا چاہیے، دوقومی اصول کو تسلیم کیا جانا چاہیے – جیے نہرو اور اٹل دور سے متعلق وراثتی سوال، سنبھال کر رکھے جانے والی باتیں بن کر رہ گئی ہیں۔ ڈپلومیسی کا مطلب اپنا فائدہ بتایا جانے لگا ہے۔
پاک مقبوضہ کشمیر ہو یا اکسائی چن- ان کو واپس لینے کے سوال کو زندہ کرنے میں ہندوستان کا مفاد ہے یا تبت کے سوال کو بھول جانے میں، جس کی وجہ سے چین اور ہندوستان کی سرحد قریب ہوئی گئی- یہ موضوع بحث بنا رہے گا۔ بھارت کا فائدہ دو طرفہ مذاکرات سے ہے۔ اس مفاد کو ایک آزاد خارجہ پالیسی سے تقویت ملتی ہے، جو اسے عالمی توازن میں مضبوطی سے مداخلت کرنے کے قابل بناتی ہے۔ اس لیے حماس کے وحشیانہ حملے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہر قسم کی دہشت گردی کی مخالفت درست ہے۔ حماس کا نام نہ لینے کی احتیاط کے سفارتی اثرات بھی ہیں۔ اسی طرح روس یوکرین جنگ کے دوران دیئے گئے ردعمل کے پیچھے بھی ایک پیغام چھپا ہے۔
دہشت گردی پر زیرو ٹالرنس کی پالیسی نیا ہندوستان ہے۔ اس نئے ہندوستان کو بدلتے ہوئے عالمی نظام میں ایک اہم مقام حاصل کرنا ہے۔ بھارت اب مہرہ بننے کو تیار نہیں ہے۔ فلسطین کے ساتھ کھڑے ہونے کے باوجود جموں و کشمیر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہندوستان کو کبھی بھی اسلامی ممالک کی حمایت نہیں ملی۔ لیکن آج اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہو کر بھی ہندوستان پہلے سے زیادہ اسلامی ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے لیے کسی عالمی مزاحمت کی عدم موجودگی اس کی ایک مثال ہے۔ یہ مثال آج کے ہندوستان کی طاقت کو واضح کرتی ہے۔
ہندوستان فلسطین کے مطالبات کے ساتھ کھڑے ہونے سے پیچھے نہیں ہٹا۔ یہ اسرائیل اور فلسطین دونوں کے ساتھ ہندوستان کے خوشگوار تعلقات کا نتیجہ ہے کہ ہندوستان میں فلسطینی سفیر عدنان ابو الہیجہ نے کہا کہ ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جو اسرائیل اور فلسطین دونوں کا ہی دوست ہے۔ موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے ان کی مداخلت ضروری ہے۔ دوسری جانب جنگ شروع ہوتے ہی اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے وزیراعظم مودی کو فون کرکے صورتحال سے آگاہ کیا۔ یہ ہندوستان کے بڑھتے ہوئے عالمی قد کی ایک مثال ہے۔ اسرائیل پر اچانک حملہ کرکے حماس نے ہندوستان کو فلسطین اسرائیل تنازعہ میں اپنے مفادات کے مطابق اپنا موقف طے کرنے کا موقع فراہم کیا ہے کیونکہ آج کے عالمی نظام میں اس کا اپنا مفاد سب سے مقدم ہے۔
بھارت ایکسپریس۔