ہندوستان میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے بھارت-امریکہ کے درمیان قربت بڑھانے پر زور دیا ہے۔
چاروی اروڑا
ایرک گارسیٹی بھارت میں امریکہ کے ۲۶ ویں سفیرہیں۔ وہ ایک فرض شناس عوامی خدمت گار، معلّم اورسفارت کار ہیں۔ سفیرگارسیٹی دو بار۲۰۱۳ء اور۲۰۱۷ء میں لاس اینجلس کے میئرمنتخب ہوئے۔ نیزانہیں شہرکی تاریخ میں سب سے کم عمرمیئرہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ اس سے قبل آپ لاس اینجلس سٹی کاؤنسل کے مسلسل ۱۲ برس تک رکن رہے۔ بحیثیت میئرآپ کے دورمیں اس شہرنے کافی معاشی ترقی کی۔ یہ سفیرگارسیٹی کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے کہ لاس اینجلس ۲۰۲۸ء کے اولمپکس اورپیرالمپکس کی میزبانی کے لیے چنا گیا۔ آپ نے صحت اورماحولیاتی تبدیلی سے متعلق ایجنڈے کی پُرزورحمایت کی ہے۔ سفیرگارسیٹی نے ۱۲ سال تک ریزروکمپوننٹ میں بحریہ کے افسرکے طورپراپنی خدمات انجام دی ہیں۔
سفیرگارسیٹی نے کولمبیا یونیورسٹی سے جان جے اسکالرکے طور پر بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ اس دوران آپ نے ہندی اوربھارتی ثقافت جیسے مضامین بھی پڑھے۔ بعد ازاں آپ نے کولمبیا یونیورسٹی کے اسکول برائے بین الاقوامی اورعوامی امورسے ماسٹرڈگری حاصل کی۔ آپ دی کوئین کالج آکسفورڈ میں روڈس اسکالر رہے۔ آپ کی اہلیہ ایمی ایلین ویکلینڈ بھی روڈس اسکالرتھیں اوردونوں آکسفورڈ میں ہم جماعت تھے۔ جوڑے کی ایک بیٹی ہے۔ جوڑا ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے رضاعی والدین کا کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ سفیر گارسیٹی کا تعلق لاس اینجلس کی چوتھی نسل ہے۔ وہ’ اسکرین ایکٹرس گِلڈ‘ کے باوقار رکن ہیں، نیز بہترین پیانو بجاتے ہیں اور شاندار فوٹوگرافی بھی کرتے ہیں۔
پیش خدمت ہیں اسپَین میگزین کے ساتھ سفیر گارسیٹی کی گفتگو کے چند اقتباسات:
آپ نے نو عمری میں جو وقت بھارت میں گزارا اس کے بارے میں بتائیں۔
میں پہلی بار ۱۹۸۵ ءمیں ۱۴ برس کی چھوٹی سی عمر میں اپنے والدین اور بہن کے ہمراہ بھارت آیا۔ اور بس کیا بتاؤں یہ ایک طرح سے میرے لیے ایک نئی دریافت تھی۔ بھارت نے فوراً میرا جی موہ لیا اورمجھے یاد دلایا کہ بھارت اور امریکہ کی ایک طویل تاریخ ہے۔ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو متاثر کیا ہے۔ گاندھی (جی) نے مارٹن لوتھر کنگ کو متاثر کیا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی تاریخ کا یادگار باب ہے کہ کس طرح دونوں ملکوں نےآزادی کی تحریک چلائی اور پھر کس طرح دونوں ملک دنیا کے عظیم ترین ملک بن گئے۔
میں دوسری مرتبہ ۱۹۹۰ ءمیں بھارت آیا اور یہ سلسلہ جاری رہا۔ ہر بار مجھے بھارت میں کچھ نہ کچھ نیا نظر آیا۔ میں اس کی ناقابل یقین ترقی کا عینی شاہد ہوں۔ یہاں کے شاندار لوگ، ان کی گرم جوشی، یہاں کی تاریخ اور ثقافت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے اور یہ اپنی جگہ برقرار ہیں۔ ہاں لیکن جس طریقے سے معاشی خوشحالی اور دنیا میں بھارت کی حیثیت تبدیل ہوئی ہے ، وہ امر قابل غور ہے۔ ابھی بھی میرے ذہن میں ۱۴ برس کی عمر کی یادیں تازہ ہیں۔ اس وقت بھارت میں امریکی سفیر کی حیثیت سے میں خود کو خوش قسمت تصور کرتا ہوں کہ میں بھارتیوں اور امریکیوں کے ساتھ مل کر ایک نیا باب رقم کر رہا ہوں جو مستقبل میں کار آمد ثابت ہو گا۔
پیانو نوا کی حیثیت سے کون سے موسیقارآپ کو متاثر کرتے ہیں؟
موسیقی مجھے وراثت میں ملی۔ میرے گرینڈ پیرینٹس کی ملاقات کسادِ عظیم (دی گریٹ ڈپریشن) کے دوران موسیقی اسکول میں ہوئی تھی۔ میری والدہ جازموسیقی آلات اور کلاسیکی پیانو بجایا کرتیں۔ انہوں نے ہی شروعات میں مجھے ان دونوں کی تعلیم دی۔ میں نے بچپن میں ہی جاز موسیقی آلات بجانا شروع کیا ۔ کالج کے دوران میں دیگر چیزوں کے علاوہ موسیقی تخلیق کیا کرتا ۔ مجھے ہر قسم کی موسیقی پسند ہے۔
میں بھارتی موسیقی کی کئی اقسام سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔ مجھے اے آر رحمان، جنہوں نے ہالی ووڈ کی کئی فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی ہے، کی موسیقی بہت پسند ہے۔ نیز روی شنکر کا ستار بجانا اور وجے ایّر کا پیانو بجانا بھی مجھے کافی پسند ہیں۔ تمام اقسام کی موسیقی میں مجھے سب سے زیادہ جاز پسند ہے۔ مجھے سب سے زیادہ متاثر کیتھ جیریٹ نے کیا ہے۔ اگر میرے دماغ میں کوئی گانا نہیں بھی ہو تب بھی میں پیانو پر بیٹھ کر بس یونہی اسے بجانے میں سکون محسوس کرتا ہوں۔ موسیقی کے ذریعہ اس پوری کائنات سے اپنے ہاتھ اور اپنی روح کی وساطت سے گفتگو کرنے کا لطف بالکل مختلف ہوتا ہے۔
آپ کی نظر میں ثقافتی سفارت کاری کس طرح امریکہ بھارت تعلقات کو مزید استحکام عطا کر سکتی ہے؟
ثقافتی سفارت کاری ایک ایسی چیز ہے جس کا حصہ غیر محسوس طور پر ہر امریکی اور بھارتی شخص ہر روزہوتا ہے ۔ ہم یوٹیوب پر ویڈیوز دیکھتے ہیں، یا پھر’’ناٹو ناٹو‘‘ اکیڈمی ایوارڈ جیتتا ہے یا پھر دلجیت دوسانجھ کوچیلا فیسٹیول میں بھارت کی موسیقی کے ساتھ شرکت کرتے ہیں، یہ تمام کے تمام ثقافتی سفارت کاری کے پہلو ہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے ہم مزید پیش قدمی کر سکتے ہیں۔ جب ہم کسی کے دل کو کہانیوں، موسیقی یا پھر کھیلوں کے ذریعے چھوتے ہیں تو اس سے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم سب کا تعلق ایک ہی انسانی خاندان سے ہے۔ بلکہ میں تو خصوصاً اس امر میں دلچسپی رکھتا ہوں کہ کس طرح ہالی ووڈ اور بالی ووڈ کو نزدیک لایا جائے اور امریکہ میں بھارت کی فلموں کو کس طرح فروغ دیا جائے۔
میرے خیال میں کھیل بھی ثقافت کا ایک اہم پہلو ہے۔ باسکٹ بال یا امریکی فٹ بال کو بھارت میں متعارف کرانےاور کرکٹ کو امریکہ میں فروغ دینے سے میرے خیال میں دونوں ممالک کے درمیان رشتوں کو ہی نہیں بلکہ زندگیوں کو بھی مزید بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ ثقافتی سفارت کاری ہمیں متحد کرتی ہے۔ بھارت میں بطور سفیر ثقافتی سفارت کاری میری سرگرمی کی بنیاد ہوگی۔
بھارت کے کون کون سے پکوان آپ کو پسند ہیں؟ بھارت کے طول و عرض میں سفر کرتے ہوئے آپ کون کون سے پکوان کھانا پسند کریں گے؟
مجھے بھارتی پکوان بہت پسند ہیں۔ میں نے پوری زندگی ان کا لطف لیا ہے۔ میں نے امریکہ میں گھر میں بھارتی کھانے پکائے ہیں۔ حالانکہ یہ بتانا میرے لیے کافی مشکل ہے کہ مجھے بھارت کا کون سا پکوان سب سے زیادہ پسند ہے مگر ہاں پھر بھی کہوں گا کہ میرے لیے دن کی شروعات کے لیے اڈلی ایک بہترین چیز ہے۔ مجھے چھولے مسالہ اور کولکاتا بریانی بھی پسند ہے۔ مجھے تمام علاقائی پکوان اچھے لگتے ہیں۔
اگر مجھے ایک چیز کا انتخاب کرنے کو کہا جائے تو میں کہوں گا کہ وہ ’’تھالی‘‘ ہے جس کو آپ بار بار کھا سکتے ہیں۔ مجھے ہاتھ سے کھانا پسند ہے۔ میرے خیال میں بہت سارے امریکیوں کے لیے یہ ایک نئی چیز ہے۔ لیکن چونکہ میں نیم میکسیکن ہوں تو مجھے مکئی کی روٹی کھانے کی عادت ہے۔ اس طرح کھانے سے آپ کھانے کا مزہ اپنی انگلی سے چکھ سکتے ہیں۔
مجھے مسالے دار پکوان بھی اچھے لگتے ہیں۔کوئی بھی کھانا مرچ کے ساتھ چلے گا۔ جب میں کبھی کسی ریستوران میں جاتا ہوں تو وہاں لوگوں کو یقین ہی نہیں ہوتا کہ میں مرچ مسالے والے کھانے کھا سکتا ہوں۔ ان کو لگتا ہے کہ امریکی مسالے دار کھانے نہیں کھا سکتے، پر میں تو کھاتا ہوں۔
اگر آپ کو کسی امریکی طالب علم کو بھارت کے بارے کوئی ایک چیز اور کسی بھارتی طالب علم کو امریکہ کے بارے میں کوئی ایک چیز بتانی ہو تو وہ کیا ہوگی؟
میں کہوں گا کہ امریکہ اور بھارت میں صلاحیت ہے کہ دونوں دنیا کا مستقبل تبدیل کرسکیں۔ یہ دونوں عظیم ملک ہیں۔ ایک کے پاس تمدن سے مزین ماضی ہے جبکہ دوسرا دنیا کی سب سے قدیم جمہوریت ہے۔ ایک تو اب نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بلکہ دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ دونوں ممالک کافی متنوع اور پیچیدہ ہیں مگر ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔
گویا ہم کئی ممالک ایک ملک میں سما گئے ہیں اور ہمیں ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھنا ہے مگر داخلی طور پر ہمارےاقدار یکساں ہیں۔ یہ اشد ضروری ہے کہ ہر فرد کو اہمیت دی جائے ، خواہ اس کا تعلق کہیں سے ہو ۔ وہ کوئی زبان بولتا ہو ، کسی سے بھی محبت کرتا ہو اور اس کا طریقہ عبادت کچھ بھی ہو۔ میرے نزدیک ان کی حیثیت کلیدی ہے ۔ امریکہ اور بھارت ان کی ہی وجہ سے پوری دنیا میں منفرد شناخت کے حامل ہیں۔
میں امریکی طلبہ کو تاکید کروں گا کہ وہ بھارت ضرور آئیں۔ ہمیں بھارت میں مزید امریکی طلبہ درکار ہیں۔ ہمارے پاس کریٹکل لینگویج اسکالرشپ اور فُل برائٹ۔نہرو اسکالر شپ جیسے بہترین تعلیمی تبادلہ پروگرام ہیں جن کی مدد سے امریکی طلبہ بھارت میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
مزید امریکی طلبہ کو بھارت لانا میرے مقاصد میں سے ایک ہے۔ طلبہ کو اسی طرح بھارت آنے کی ضرورت ہے جیسے میں طالب علمی کے زمانے میں یہاں آیا،تاکہ وہ بھارت کے بارے میں جانیں، یہاں کی زبانیں بول سکیں اور اس کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں جان سکیں۔ میں امریکی طلبہ سے کہتا ہوں کہ آپ کی دلچسپیوں سے قطع نظر، خواہ تجارت، سیاست، ثقافت یا موسیقی ہو بھارت یقیناً آپ کی زندگیوں کے لیے ایک بہترین مقام ثابت ہو گا اور کچھ اچھا کرنے میں معاون ہو گا۔
بھارت کے طلبہ سے میں یہی کہوں گا کہ ہمیں یہ بہت اچھا لگتا ہے کہ آپ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے امریکہ آتے ہیں۔ ہم نے بھارت سے امریکہ جانے کے لیے ریکارڈ تعداد میں اسٹوڈنٹ ویزا جاری کیے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ بھارتی طلبہ امریکہ آئیں اور خود مشاہدہ کریں کہ امریکہ اور بھارت نہ صرف اسٹیم بلکہ دیگر میدانوں میں بھی کتنا زبردست کام کر رہے ہیں۔ میں بھارت کے طلبہ سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ ضرور آئیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ضرور آئیں اور یہاں اپنی خدمات انجام دیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہاں آئیں اور جب آپ یہاں سے واپس بھارت جائیں تو ساتھ میں امریکی اقدار و ثقافت بھی لے کر جائیں۔
اسی سے حقیقی طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات کو تقویت ملے گی، نہ کہ کسی سفیر کے وزیر اعظم اور کسی صدر کے وزیر خارجہ سے ملاقات سے۔ یہ تو عوام ہی سے ہوگا جو نہ صرف یہ کہ دونوں ملکوں سے واقف ہیں بلکہ ان سے محبت بھی کرتے ہیں۔
امریکہ اور بھارت کے نوجوان دونوں ممالک کے اشتراک کے اس پُر جوش عہد میں کس طرح حصہ لے سکتے ہیں؟
اس وقت بھارت میں ۱۶ برس یا اس سے کم عمر کے لوگوں کی جتنی آبادی ہے وہ پورے امریکہ کی آبادی کے برابر ہے۔ ایک ایسے ملک میں رہنا بہت دلچسپ ہے جہاں نوجوان نہ صرف اس ملک کی سمت بدل سکتے ہیں بلکہ ہمارے ملک اور پوری دنیا کو متاثر کر سکتے ہیں۔
میں کہوں گا ہمت کرو، دوستانہ ماحول بنائے رکھو، اپنے دل کی آواز سنو۔ اپنی ثقافتیں اور اپنے تخلیقی تصورات لاؤ۔ تخلیق کار بنو۔ مجھے بھارت کی ہپ ہاپ، جاز بہت پسند ہے۔ جب امریکی موسیقی کار امریکی اور روایتی بھارتی موسیقی کے سنگم سے ایک نئی دھن تیار کرتے ہیں وہ واقعی ایک نہایت خوبصورت سماں ہوتا ہے۔
میرا ماننا ہے کہ آج کے وقت میں نوجوانوں کے لیے جغرافیائی حدود بے معنی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم صرف اور صرف ایک ہی چیز یا ایک ہی جگہ کے لیے نہیں بنے ہیں۔ مجھے بڑی بے صبری سے اس وقت کا انتظار ہے جب بھارت اور امریکہ تعلقات کی کمان نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگی۔ وہ ہی یہ طے کریں گے کہ فیشن کیسا ہو، کون سی فلم یا گانا مقبول ہو ، نئی کہانی کون سی ہو اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ہم اپنی زندگیوں میں کیا کیا خوش گوار تبدیلیاں لا سکتے ہیں، طبّی خدمات کو مزید کیسے بہتر بنایا جا سکتا ہے یا پھر خوشحالی میں مزید کیسے اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
آخر میں میں نوجوانوں سے یہ کہوں گا کہ وہ اپنی قدروں کے ساتھ آئیں۔ ہم ایک ایسی دنیا تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس میں صنفی مساوات ہوں۔ جہاں سب کی بات سنی جاتی ہو، ایک ایسی دنیا جو غربت و افلاس سے پاک ہو، جس میں ہم صاف ہوا میں سانس لے سکیں، جس میں ماحولیاتی تبدیلی پر ہم قابو پا چکے ہوں۔ درپیش چیلنجوں کے لیے اپنا جنون اور اپنے حل پیش کریں۔ نہ تو بھارت اکیلا ان مسائل پر عبور پا سکتا ہے اور نہ ہی امریکہ۔ لیکن دونوں ممالک متحد ہو کر ان کے خلاف بہتر طور پر صف آرا ہو سکتے ہیں ۔
قارئین کو آپ کیا کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
میں ہمیشہ یہی کہتا ہوں کہ نڈر بنو۔ کسی کو یہ کہنے کا موقع مت دو کہ تم یہ نہیں کر سکتے۔ تم کر سکتے ہو۔ دوسری بات یہ کہ عاجزی اختیار کرو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بے باکی تمہارے اندر کبر کو جنم دے۔ تیسری بات یہ کہ سننے کی صلاحیت پیدا کرو۔ یہ آپ کی شخصیت کا نہایت ہی اہم پہلو ہے۔ ہمیں سب کو یہ کرنا سکھایا جاتا ہے جو میں اس وقت کر رہا ہوں یعنی ایک بہتر اندازِ گفتگو پیدا کرنا، تقریریں کرنا اور سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنا۔ لیکن اگر آپ دنیا کو سنیں گے تو آپ کی بات میں وزن پیدا ہو گا۔ اور آخری بات یہ کہ پیار سے قیادت کروتوتمہیں ہر جگہ اچھائی ہی اچھائی نظر آئے گی۔ تم دنیا کے لئے ایک بہتر کل تعمیر کرنے میں کامیاب ہوگے۔ اور ساتھ مل کر ہی ہم ایک بہتر دنیا بناپائیں گے۔
بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی