بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ ۔
اگست کا مہینہ تھا، سال تھا 1975۔ ہندوستان آزادی کا جشن منا رہا تھا، لیکن بنگلہ دیش میں جو ہو رہا تھا وہ تاریخ کا ایک سیاہ باب بن گیا۔ 15 اگست 1975 کو ڈھاکہ کے دھن موڑی علاقے میں صدارتی رہائش گاہ میں ایک کے بعد کئی گولیاں چلیں۔ جب گولیوں کی آوازرکی توایک شخص کمرے سے باہرنکلا۔ یہ شخص کوئی اورنہیں بلکہ صدرشیخ مجیب الرحمٰن تھے۔ یعنی شیخ حسینہ کے والد۔ جب وہ کمرے سے باہرنکلے توپُرتشدد بھیڑمیں شامل نوجوانوں نے انہیں دبوچا اورگولیاں چلانی شروع کردیں۔ شیخ مجیب الرحمٰن زمین پرگرپڑے۔ انہیں 18 گولیاں ماری گئی تھیں۔ ان کی فیملی کوبھی مٹا دیا گیا تھا۔
پُرتشدد بھیڑمیں شامل یہ قاتل شاید اس بات سے متعلق پوری طرح مطمئن تھے کہ انہوں نے مجیب الرحمٰن کی پوری فیملی کا خاتمہ کردیا، مگرایسا ہوا نہیں۔ اس حملے میں فیملی کے دورکن محفوظ تھے۔ جن میں ایک تھیں شیخ حسینہ اوردوسری ان کی بہن شیخ ریحانہ۔ بنگلہ دیش کے اقتدارپروزیراعظم کے طورپرپانچ بارقابض رہیں شیخ حسینہ اب ڈھاکہ چھوڑچکی ہیں۔ بیٹے سازب جاوید جوائے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ اب کبھی سیاست میں نہیں لوٹیں گی۔ اگرایسا ہوتا ہے توتشدد کے بعد شروع ہوئی شیخ حسینہ کی سیاسی اننگ کا یہ مایوس کن خاتمہ ہوگا۔
کیسے شروع ہوئی تھی شیخ حسینہ کی سیاسی اننگ
شیخ حسینہ کی پیدائش 1947 میں ہوئی تھی۔ وہ مجیب الرحمٰن کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ بچپن سے ہی والد سے وہ متاثرتھیں۔ ان کے زمانہ طالب علمی میں ہی اس کی جھلک نظرآنے لگی تھی۔ کالج کے دنوں میں وہ طلبہ سیاست میں سرگرم ہوئیں۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں انہیں اسٹوڈنٹ لیگ کی وویمن ونگ (خواتین یونٹ) کا جنرل سکریٹری بھی بنایا گیا۔ 1967 میں انہوں نے سائنٹسٹ واجد میاں سے شادی کی۔ مشرقی پاکستان کوبنگلہ دیش بنانے کے لئے آندولن شروع ہوئے۔ 1971 میں بنگلہ دیش کی تشکیل ہوئی۔ نئی حکومت بنی، جس کے سربراہ شیخ حسینہ کے والد مجیب الرحمٰن بنے۔ بنگلہ دیش کی تشکیل ہوچکی تھی، سب کچھ صحیح چل رہا تھا۔ اس درمیان شیخ حسینہ شوہرکے ساتھ جرمنی چلی گئیں۔ تب تک شیخ حسینہ کوشاید اس بات کا اندازہ بھی نہیں رہا ہوگا کہ ان کی قسمت انہیں وہیں واپس کھینچ لائے گی۔
49 سال پہلے کا وہ پُرتشدد دن
اب لوٹتے ہیں تشدد والے دن یعنی سال 1975 میں۔ مجیب الرحمٰن کو تشدد کے دوران ماردیا گیا۔ بنگلہ دیش سے کئی ہزارکلومیٹردورجرمنی میں جب شیخ حسینہ کواس بارے میں بتایا گیا تووہ ٹوٹ گئیں۔ والد ہی نہیں فیملی ختم ہو چکی تھی۔ اس سے بھی پریشان کن بات یہ تھی کہ وہ والد کوآخری باردیکھنے کے لئے اپنے ملک نہیں آسکتی تھیں۔ سب ختم ہوچکا تھا، تبھی ہندوستان نے مدد کا ہاتھ بڑھایا۔ شیخ حسینہ نے اسے قبول کیا اوراپنے دوبچوں کے ساتھ دہلی آگئیں۔ اس مدد کی پیشکش خود اس وقت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کی تھی۔ شیخ حسینہ نام اورپہچان بدل کردہلی میں تقریباً 6 سال تک رہیں۔ یہ بات صرف شیخ حسینہ کے بھروسے مند لوگوں کوہی معلوم تھی۔
شیخ حسینہ پھربن گئیں لیڈر
بنگلہ دیش بدل چکا تھا۔ ضیاء الرحمٰن فوجی حکومت چلا رہے تھے۔ ہندوستان میں گمنامی کی زندگی گزارنے والی شیخ حسینہ کے بنگلہ دیش میں داخلے پرپابندی لگا دی گئی۔ 1981 میں شیخ حسینہ نے اپنے ملک کے لئے آواز بلند کی۔ وہ اپنے والد کی پارٹی عوامی لیگ کی صدربن گئیں اوراپنے ملک واپس آنے کا عزم کیا۔ جب وہ واپس آئیں تو بنگلہ دیش کے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ اس وقت کی حکومت یہ بات ہضم نہ کرسکی اوران کوگرفتارکرلیا گیا۔ ان پربدعنوانی کے بھی الزامات تھے۔
قسمت سے جنگ لڑکرحاصل کی جیت
شیخ حسینہ کا یہ سفرآسان نہیں تھا، وہ گرفتارکی جاتیں اورچھوڑ دی جاتیں۔ 1986 میں طے ہوا کہ بنگلہ دیش میں الیکشن ہوں گے۔ شیخ حسینہ رہا کردی گئیں۔ وہ پوری طاقت کے ساتھ الیکشن لڑیں اور100 سیٹیں حاصل کرکے اپوزیشن میں بیٹھیں۔ 1996 میں الیکشن ہوئے توشیخ حسینہ پہلی باربنگلہ دیش کی وزیراعظم بنیں، لیکن 2001 میں پھرانہیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑا اوربنگلہ دیش کی حکومت پربنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کا قبضہ ہوا۔
ملک میں داخل ہونے پرلگی پابندی تورقم کی تاریخ
سال 2007 میں شیخ حسینہ امریکہ گئیں، وہ واپس لوٹ پاتیں کہ اس سے پہلے ہی برسراقتداربنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) نے ان کے بنگلہ دیش میں داخل ہونے پرپابندی لگا دی۔ 15 دنوں کے ڈرامائی حادثے کے بعد یہ پابندی ہٹی۔ وہ لوٹیں اورانہیں بڑی عوامی حمایت ملی۔ 2009 میں الیکشن ہوئے اور شیخ حسینہ اقتدارمیں لوٹ آئیں، تب سے وہ بنگلہ دیش کی اقتدار پر مسلسل راج کررہی تھیں، مگر اب شاید وہ کبھی سیاسی میدان میں نہیں نظرآئیں گی۔ کیونکہ ان کو پُرتشدد ماحول میں وزیراعظم کی کرسی چھوڑکر ملک سے بھاگنا پڑا ہے۔
بھارت ایکسپریس–