Bharat Express

Russia condemns killing of Ismail Haniyeh: حماس کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کے قتل کی روس نے کی مذمت، کہی یہ بڑی بات

ماسکو نے بیروت میں اسرائیلی حملے کی بھی مذمت کی اور اسے لبنان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔

اسماعیل ھنیہ کے قتل کی روس نے کی مذمت

ماسکو: حماس کے پولٹ بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ تہران میں ان کی رہائش گاہ پر میزائل حملے میں مارے گئے۔ روس نے بدھ کے روز اسماعیل ھنیہ کے قتل کی شدید مذمت کی ہے۔ روسی وزارت خارجہ کے انفارمیشن اینڈ پریس ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر آندرے نستاسین نے میڈیا کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ واضح ہے کہ سیاسی قتل کے مرتکب افراد کو اس بات کا علم تھا کہ اس کارروائی کے پورے خطے پر کیا خطرناک نتائج مرتب ہوں گے۔

’’جنگ بندی مذاکرات پر پڑے گا بہت برا اثر‘‘

انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسماعیل ھنیہ کے قتل سے حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری جنگ بندی مذاکرات پر بہت برا اثر پڑے گا۔ یہ بات چیت غزہ پٹی میں امن اور جنگ بندی کے لیے ہو رہی تھی۔ اب اس قتل کی وجہ سے امن کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔

حلف برداری تقریب کیلئے ملی تھی دعوت

بتا دیں کہ حماس کے سربراہ پر حملہ اس وقت ہوا جب وہ ایران میں تھے۔ انہیں باضابطہ طور پر ایران کے نو منتخب صدر پیزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔

متعلقہ فریقوں سے پرامن طریقے سے کام کرنے کی اپیل

روسی وزارت خارجہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے کہا، ’’ایک بار پھر ہم تمام متعلقہ فریقوں سے کہتے ہیں کہ وہ پرامن طریقے سے کام کریں۔ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے خطے میں کشیدگی بڑھے۔ ایسا کرنے سے کوئی بڑا تنازعہ ہو سکتا ہے، جس سے بہت نقصان ہونے کا امکان ہے۔‘‘

یہ بھی پڑھیں: اسماعیل ہنیہ کے قتل کا بدلہ ایران کا فرض ہے،خامنہ ای کا بیان، القسام بریگیڈ نے بھی کردیا بڑا اعلان

بیروت میں اسرائیلی حملے کی مذمت

ماسکو نے بیروت میں اسرائیلی حملے کی بھی مذمت کی اور اسے لبنان کی خودمختاری اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ آندرے نستاسین نے کہا کہ ہم مشرق وسطیٰ میں حالات کے تیزی سے بگڑنے کے بڑھتے ہوئے خطرے پر اپنی گہری تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘

اسماعیل ہنیہ کون تھے؟

واضح رہے کہ اسماعیل ہنیہ ایک ایسا فلسطینی چہرہ تھے جو سفارتی سطح پر انتہائی مشکل صورت حال میں بھی سخت سے سخت ماحول میں بھی اپنی بات پوری شدت کے ساتھ کہنے کی شہرت رکھتے تھے۔غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران ان کے تین بیٹے بھی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی وابستگی اور بیانیہ اسی طرح مضبوطی سے جاری رہا جس طرح اس سے پہلے وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ انہیں بہت سے سفارت کاروں نے ہمیشہ بڑے تحمل اور مہارت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے اور اس پر قائم رہتے دیکھا ۔ دوسرے کئی رہنماؤں کے مقابلے میں وہ زیادہ متحمل اور سفارتی انداز و اطوار میں ڈھلے ہوئے تھے۔

بھارت ایکسپریس۔