فلسطین اسرائیل کی جنگ میں شدت کم ہوتی فی الحال دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ کل امریکی صدر جوبائیڈن کا اسرائیل کا دورہ ہے جہاں وہ بنجامن نتن یاہو سے ملاقات کریں گے اور پھر فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے بھی ملاقات کریں گے ،اس کے بعد ممکن ہے کہ شدت میں کمی آئے ،کچھ نیا فیصلہ ہو اور قیامت کا یہ بادل چھٹ جائے اور دھیر دھیرے پھر سے موسم صاف ہوجائے ۔ فلسطینیوں کے زخم گہرے ہیں ،ہزاروں کی تعداد میں بڑے ،بزرگ اور معصوم ونومولود بچوں کی شہادت نے ان کے سکون کو غارت کررکھا ہے اس بیچ ا ب بھوک مری نے بھی دستک دے دی ہے ۔
دراصل اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی میں صورتحال تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے جب کہ وہاں دکانوں میں صرف چار، پانچ دن کے کھانے کا ذخیرہ باقی رہ گیا ہے۔یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کہ اسرائیل 23 لاکھ افراد پر مشتمل غزہ میں جارحانہ کارروائی تیز کرنے کی تیاری کر رہا ہے جس نے غزہ میں انسانی بحران کو جنم دیا ہے اور ایران کے ساتھ تنازع میں اضافے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے۔ غزہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 7 اکتوبر سے اب تک اسرائیلی حملوں میں 2 ہزار 800 سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، جن میں سے ایک چوتھائی تعداد بچوں کی ہے، 10 ہزار سے زائد زخمی افراد ہسپتالوں میں زیرِ علاج ہیں جہاں ضروری سامان کی شدید قلت ہے۔
ڈبلیو ایف پی کے مشرق وسطیٰ کے ترجمان نے قاہرہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں موجود صحافیوں کو بتایا کہ دکانوں میں موجود اسٹاک چند روز کی ضروریات سے بھی کمی کے قریب پہنچ رہے ہیں، شاید چار یا پانچ دن کا کھانے کا ذخیرہ باقی رہ گیا ہے۔دوسری جانب عالمی ادارہ صحت نے زور دیا کہ اسے امداد اور طبی سامان کی فراہمی کے لیے غزہ تک فوری رسائی کی ضرورت ہے۔ایک بریفنگ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ڈبلیو ایچ او کے ایک نمائندے نے کہا کہ ایجنسی آج ’فیصلہ سازوں‘ سے مل رہی ہے تاکہ غزہ تک جلد سے جلد رسائی دی جائے۔انہوں نے رفح کراسنگ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہم نے رفح کے جنوب میں امداد فراہم کی ہے اور غزہ میں داخلے کے لیے اجازت کا انتظار کر رہے ہیں۔
مشرق وسطیٰ میں امریکی فوج کے نگران جنرل مایکل ایرک کوریلا تل ابیب کا دورہ کر رہے ہیں۔ اعلیٰ ترین امریکی فوجی عہدیدار غزہ پر متوقع اسرائیلی حملے اور امریکی صدر جو بائیڈن کے تل ابیب دورے سے ایک دن پہلے آمد کو انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔اپنے غیر علانیہ دورے سے پہلے منگل کے روز رائیٹرز کے ذریعے جاری کروائے گئے ایک بیان میں جنرل مائیکل کا کہنا تھا ’’کہ وہ حماس کے خلاف تیزی اختیار کرتی ہوئے جنگ میں اسرائیلی ضروریات کا اندازہ لگانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی بروقت فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی عہدیداروں سے اس معاملے پر بھی تبادلہ خیال کریں گے کہ جنگ کا دائرہ دوسرے علاقوں تک پھیلنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے بتایا کہ گیرالڈ فورڈ بحری بیڑے کے علاوہ ’’باتان‘‘ بحری بیڑا بھی اسرائیلی ساحل کی سمت بڑھ رہا ہے۔ اس بیڑے پر امریکی میرینز کے مہماتی یونٹس کے دو ہزار اہلکار بھی موجود ہیں۔
امدادی اہلکاروں نے بتایا کہ امدادی سامان کے قافلے جو مصر میں کئی دنوں سے انتظار کر رہے تھے، منگل کو غزہ کی محصور پٹی کے ساتھ رفح سرحدی گذرگاہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب تک مصر نے رفح گذرگاہ کو بند رکھا ہے تاکہ اندر داخل ہونے والے یا پٹی سے باہر نکلنے کی کوشش کرنے والے غیر ملکی شہریوں کی مدد کی جا سکے کیونکہ اسرائیل بار ہا گذرگاہ کے فلسطینی حصے پر حملہ کر چکا ہے۔مرسل نامی امدادی گروپ کی نگران حباء رشید نے کہا کہ ہم ٹرمینل پر پہنچ چکے ہیں اور اب اگلے مرحلے کا انتظار ہے۔
دیگر امدادی اہلکاروں نے بتایا کہ مصری شہر العریش سے رفح تک 40 کلومیٹر (25 میل) کے سفر کے لیے مزید سینکڑوں لاریاں ساحلی سڑک کے ساتھ رواں تھیں۔ہلالِ احمر کے ایک اہلکار نے تصدیق کی کہ امدادی قافلے منقسم سرحدی شہر رفح کی مصری سمت میں جمع ہو رہے تھے۔مصری ہلالِ احمر کے اہلکار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا، “یہ نہیں بتایا گیا کہ گذرگاہ کو کب عبور کرنا ہے لیکن ہمیں رفح کی طرف جانے کے لیے کہا گیا۔اہلکار نے کہا جو خود رفح کی طرف جا رہا تھا۔ “آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم امداد کے داخلے اور غیر ملکیوں کے اخراج کے ایک معاہدے کے قریب ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔