Bharat Express

Israel-Hamas war: ہرپانچ میں سے ایک فلسطینی کو اسرائیل بناتا ہے قیدی،20-20 سالوں تک رکھتا ہے بند

اس وقت اسرائیل کے اندر 19 جیلیں ہیں، جہاں فلسطینیوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی ایک جیل  ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق انتظامی علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے وہاں رکھنا غلط ہے لیکن اسرائیل مبینہ طور پر اسے نظر انداز کر رہا ہے اور مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی سے لوگوں کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔

ہر 5 میں سے 1 فلسطینی کبھی نہ کبھی اسرائیلی جیلوں میں جاتا ہے۔ یہ فیصد امریکہ سے بہت زیادہ ہے، جہاں ہر 200 میں سے ایک امریکی کو جیل جانا پڑتا ہے۔ اسرائیل میں ایک خاص قسم کا ملٹری آرڈر ہے جو چھوٹی اور بڑی سرگرمیوں کو جرائم کے زمرے میں رکھتا ہے۔ یہاں تک کہ پتھراؤ پر بھی برسوں قید ہو سکتی ہے۔وہیں اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی اسرائیلی جیلوں میں ضرور قید کیا جاتا ہے۔ حماس کے ساتھ معاہدے کے تحت اسرائیل فلسطینی قیدیوں کو رہا کر رہا ہے جس کے بدلے میں یرغمالیوں کو رہا کیا جا رہا ہے۔ لیکن یرغمالیوں کے تبادلے میں جو بات چل رہی ہے وہ یہ ہے کہ اسرائیل میں ہزاروں فلسطینی شہری کس جرم میں قید ہیں اور جرم ثابت ہونے پر انہیں کس قسم کی سزا ملتی ہے۔سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر بڑا حملہ کیا اور تقریباً 200 سے زائد افراد کو یرغمال بنا لیا۔ اب وہ ان لوگوں کو رہا کرنے کے بجائے اسرائیلی جیلوں میں قیدیوں کو رہا کروا رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل جیل سروس (آئی پی ایس) نے بھی بڑی تعداد میں نوعمروں کو جیلوں میں رکھا ہوا ہے۔ یہاں اوسطاً ہر پانچ میں سے ایک شخص جیل جاتا ہے جب کہ مردوں کے معاملے میں یہ تعداد ہر پانچ میں سے دو بنتی ہے۔

اسرائیل میں کام کرنے والی ایک این جی او ہا موکڈکے مطابق وہاں کی جیلوں میں 5 ہزار سے زائد فلسطینی قید ہیں۔ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد ان کی تعداد بڑھ کر سات ہزار کے قریب ہو گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر یا تو اسرائیل کو شبہ ہے، یا جنہوں نے حماس کی حمایت میں کوئی سرگرمی کی ہے۔اقوام متحدہ کا ڈیٹا مزید خوفزدہ کرتا ہے۔ 1967 میں جب اسرائیل نے عرب ممالک کے ساتھ لڑائی کے بعد یروشلم، غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا تو اس وقت میں تقریباً 10 لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔ یاد رہے کہ پوری غزہ کی پٹی کی آبادی تقریباً 22 لاکھ ہے۔

اس وقت اسرائیل کے اندر 19 جیلیں ہیں، جہاں فلسطینیوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مغربی کنارے میں بھی ایک جیل  ہے۔ چوتھے جنیوا کنونشن کے مطابق انتظامی علاقوں سے لوگوں کو اغوا کر کے وہاں رکھنا غلط ہے لیکن اسرائیل مبینہ طور پر اسے نظر انداز کر رہا ہے اور مغربی کنارے یا غزہ کی پٹی سے لوگوں کو اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔اسرائیلی جیلوں میں 1200 سے زائد انتظامی قیدی بھی ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں بغیر کسی مقدمے یا الزام کے طویل عرصے تک جیل میں رکھا جاسکتا ہے۔ اس میں حکومت کہہ سکتی ہے کہ اسے کچھ خفیہ ثبوت ملے ہیں، جن کی بنیاد پر وہ یہ کام کر رہی ہے۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ شواہد اکٹھے کرنے کے عمل میں لوگوں کو حراست میں رکھتا ہے۔

گزشتہ 23 سالوں میں 12 ہزار سے زائد فلسطینی بچوں کو اسرائیل نے یرغمال بنایا۔ ہر سال اسرائیلی فوج کم از کم 700 ایسے لوگوں پر مقدمہ چلاتی ہے جن کی عمریں 18 سال سے کم ہوتی ہیں۔ سب سے عام جرم پتھراؤ ہے، جس میں 20 سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے، اگر یہ ثابت ہو جائے کہ پتھراؤ کرنے والے نے گاڑی یا گھر کے اندر لوگوں کو مارنے کی نیت سے ایسا کیا تھا۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ 2011 سے اب تک پتھر بازی سے 3 اسرائیلی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ  کس ملک کے جیلوں میں سب سے زیادہ قیدی ہیں ۔اس میں پہلے امریکہ کا نام آتا تھا جہاں ہر 200 میں سے ایک شخص جیل جاتا تھا۔ لیکن اب چین اس میں سرفہرست ہے۔ گزشتہ سال وہاں 1.7 ملین افراد کو جیل بھیج دیا گیا تھا۔

بھارت ایکسپریس۔