نجر قتل کیس میں چوتھا ہندوستانی شہری گرفتار
واشنگٹن: کینیڈا کے حکام نے خالصتانی علیحدگی پسند ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کیس میں ایک اور ہندوستانی شہری کو گرفتار کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس معاملے میں اب تک گرفتار ہونے والے ہندوستانی شہریوں کی تعداد چار ہو گئی ہے۔ کینیڈا کے سرے کا رہنے والا 22 سالہ امندیپ سنگھ پر قتل اور قتل کی سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ 45 سالہ نجر کو 18 جون 2023 کو برٹش کولمبیا کے سرے میں گرو نانک سکھ گوردوارے کے باہر قتل کر دیا گیا تھا۔
کینیڈین پولیس کی انٹیگریٹڈ ہومسائڈ انویسٹی گیشن ٹیم (IHIT) نے کہا کہ سنگھ کو 11 مئی کو نجر کے قتل میں اس کے کردار کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ ایک سرکاری ریلیز کے مطابق وہ ایک اور کیس کے سلسلے میں پیل ریجنل پولیس کی تحویل میں تھا۔ آئی ایچ آئی ٹی کے افسر انچارج مندیپ موکر نے کہا، “یہ گرفتاری ہماری جاری تحقیقات کی نوعیت کو ظاہر کرتی ہے کہ ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں کردار ادا کرنے والوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔”
پولیس نے ایک بیان میں کہا، “IHIT نے شواہد اکٹھے کیے اور امندیپ سنگھ کے خلاف قتل اور قتل کی سازش کے الزامات کی حمایت کے لیے کافی معلومات حاصل کیں۔” تفتیش کاروں نے کہا کہ جاری تحقیقات اور عدالتی کارروائی کے باعث اس کیس میں گرفتاری کی مزید تفصیلات جاری نہیں کی جا سکتیں۔
IHIT کے تفتیش کاروں نے اس معاملے میں 3 مئی کو تین ہندوستانی شہریوں – 22 سالہ کرن برار،22 سالہ کمل پریت سنگھ اور 28 سالہ کرن پریت سنگھ کو گرفتار کیا تھا۔ تینوں ملزمان ایڈمنٹن کے رہنے والے ہیں اور ان پر قتل اور قتل کی سازش کے الزامات ہیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی جانب سے گزشتہ سال ستمبر میں نجر کے قتل میں ہندوستانی ایجنٹوں کے “ممکنہ” ملوث ہونے کے الزام کے بعد ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ ہندوستان نے ٹروڈو کے الزامات کو “مضحکہ خیز اور محرک” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
بھارت نے طویل عرصے سے کینیڈا میں سکھ علیحدگی پسند گروپوں کی موجودگی پر اعتراض کیا ہے۔ اس نے نجر کو ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیا تھا۔ وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ خالصتانی علیحدگی پسند عناصر کو سیاسی سرپرستی دے کر کینیڈین حکومت یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس کا ووٹ بینک قانون کی حکمرانی سے زیادہ طاقتور ہے۔
جے شنکر نے جمعرات کے روز ‘پی ٹی آئی’ کو ایک خصوصی انٹرویو میں کہا تھا کہ ہندوستان اظہار رائے کی آزادی کا احترام کرتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کو دھمکی دی جائے، علیحدگی پسندی کی حمایت کی جائے یا تشدد کی وکالت کرنے والے عناصر کو سیاسی سرپرستی دی جائے۔
پنجاب سے آنے والے سکھ تارکین وطن میں خالصتان کے حامیوں کا ذکر کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ مشکوک پس منظر والے لوگوں کو کینیڈا میں داخل ہونے اور رہنے کی اجازت کیسے دی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’’کسی بھی اصول پر مبنی معاشرے میں آپ لوگوں کا پس منظر چیک کریں گے کہ وہ کیسے آئے، ان کے پاس کون سا پاسپورٹ تھا وغیرہ‘‘۔ وزیر خارجہ نے کہا تھا، “اگر آپ کے پاس ایسے لوگ ہیں جو مشکوک دستاویزات کی بنیاد پر وہاں موجود ہیں، تو یہ آپ کے بارے میں کیا کہتا ہے؟ دراصل یہ کہتا ہے کہ آپ کا ووٹ بینک آپ کے قانون کی حکمرانی سے زیادہ طاقتور ہے۔”