Bharat Express

America held Secret Talks with Iran: جنگ کے درمیان امریکہ اور ایران میں ہوئی ’خفیہ میٹنگ‘، بات چیت کے لئے کیوں مجبور ہوا سپر پاور؟

امریکہ کی ایران کے ساتھ دشمنی بھی ہے، لیکن حوثی جنگجووں نے اپنے حملوں سے امریکہ کو ایران سے مدد مانگنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔ خبر ہے کہ امریکہ نے حوثی حملے روکنے کے لئے ایران کی مدد مانگی ہے۔

امریکہ اور ایران میں ہوئی ’خفیہ میٹنگ‘ ہوئی۔

یمن کے حوثی جنگجووں کے سامنے دنیا کا سپرپاور امریکہ بے بس نظرآرہا ہے۔ اسرائیل کے غزہ پرحملہ شروع کرنے کے بعد سے ہی حوثی جنگجووں نے اعلان کیا تھا کہ اسرائیل سے متعلق کسی بھی جہازکو ہم بحیرہ احمرسے نہیں گزرنے دیں گے۔ اپنے حملوں کی شروعات میں ہی حوثی جنگجووں نے فلمی انداز میں ایک جہاز کوہائی جیک کرتے ہوئے ویڈیو جاری کرکے اپنی صلاحیت کو دکھایا تھا۔ امریکہ اوربرطانیہ نے حوثیوں سے نمٹنے کے لئے الائنس فوج بناکرآپریشن شروع کیا ہے، لیکن ان کو بھی کامیابی ملتی ہوئی نہیں نظرآرہی ہے۔ دوسری طرف، بحیرہ احمرمیں حوثی کے حملے سے دنیا کے کئی حصوں کی سپلائی چین متاثرہوگئی ہے۔ اس درمیان خبر ہے کہ حوثیوں کے ان حملوں کو روکنے کے لئے امریکہ نے اس کے دشمن کہے جانے والے ایران کے ساتھ ’خفیہ میٹنگ‘ کی ہے۔

حوثی ملیشیا نے بحیرہ احمرمیں تجارتی بحری جہازوں پراپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے نتیجے میں 15 تجارتی بحری جہازمتاثرہوچکے ہیں۔ دوسری جانب امریکہ اوربرطانیہ سمیت دوسرے اتحادی ممالک حوثیوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی اخبار’ فنانشل ٹائمز‘ نے باخبرذرائع کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ امریکی اورایرانی حکام کے مطابق امریکہ نے اس سال ایران کے ساتھ خفیہ بات چیت کی تھی تاکہ تہران کو یمن کی حوثی تحریک پراپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے بحیرہ احمرمیں بحری جہازوں پرحملوں کو روکنے پرقائل کیا جائے۔

فنانشل ٹائمزکے مطابق حکام نے کہا کہ یہ بالواسطہ مذاکرات تھے۔ اس کے دوران واشنگٹن نے ایران کے جوہری پروگرام میں توسیع کے بارے میں خدشات کا اظہارکیا۔ یہ مذاکرات جنوری میں عمان میں ہوئے یہ دونوں حریف ملکوں کے درمیان 10 ماہ میں پہلی مرتبہ تھے۔ امریکی وفد کی سربراہی وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے مشیربریٹ میک گرک اورایران کے لئے ان کے خصوصی ایلچی ابرام بالی، ایرانی نائب وزیرخارجہ علی باقری کنی کررہے تھے۔ باقری تہران میں جوہری مذاکرات کارکے طورپربھی کام کرچکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا کہ عمانی حکام نے ایرانی اورامریکی نمائندوں کے درمیان پیغامات پہنچائے، جنہوں نے براہ راست بات نہیں کی۔

مذاکرات میں اس بات پرروشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح بائیڈن انتظامیہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے بعد مسلح گروپوں کی طرف سے کی شروع کی جانے والی فوجی کارروائیوں کی لہرکو پرسکون کرنے کی کوشش میں اپنے مخالف کے ساتھ فوجی ڈیٹرنس کے ساتھ سفارتی ذرائع استعمال کر رہی ہے۔ اس معاملے سے واقف ایک شخص نے کہا کہ امریکی حکام ایران کے ساتھ بالواسطہ چینل کے قیام کو”ایران سے لاحق خطرات کی مکمل رینج پربات چیت کرنے کے ایک طریقہ کے طورپردیکھتے ہیں، جس میں یہ بتانا بھی شامل ہے کہ انہیں وسیع ترتنازعہ کو روکنے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔ میک گرک کی شرکت کے ساتھ مذاکرات کا دوسرا دورفروری میں ہونا تھا، لیکن اسے اس وقت ملتوی کردیا گیا، جب وہ غزہ میں جنگ کو روکنے اوراسرائیل کے یرغمالیوں کی رہائی کے لئے اسرائیل اورحماس کے درمیان معاہدہ کرانے کی امریکی کوششوں میں شامل تھے۔

 بھارت ایکسپریس۔

 

Also Read