امریکہ نے پہلی بار جنگ کے دوران غزہ کو امداد فراہم کی ہے۔ امریکی فوجی طیارے نے پیراشوٹ کے ذریعے فلسطینیوں کے لیے کھانے کے ڈبے گرائے ہیں۔ لوگ ان کو جمع کرنے کے لیے سمندر میں بھی بھاگتے ہوئے دیکھے گئے۔غزہ میں امدادی سامان پہنچانے کے لیے پوائنٹس بنائے گئے ہیں۔ سمندر کے قریب بھی ایک جگہ ہے۔ امریکہ نے یہاں سے مدد فراہم کی۔ اقوام متحدہ کے مطابق غزہ کی 22 لاکھ سے زائد آبادی غذائی قلت کے دہانے پر ہے۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکہ نے 66 ڈبوں میں 38 ہزار افراد کےکھانے کے لیے تیار کھانا گرایا۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ یہ صرف شروعات ہے، وہ مستقبل میں بھی غزہ میں مقیم فلسطینیوں کی مدد کرتا رہے گا۔ یہ مشترکہ آپریشن تھا۔ اس میں اردنی فوج بھی شامل تھی۔
امریکہ نے مدد فراہم کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا جب یکم مارچ کو کھانا لینے کے لیےقطار میں کھڑے معصوموں پر اسرائیلی فوجیوں نے اندھا دھندفائرنگ کردی تھی۔ اس واقعے کی ویڈیو جب سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تو امریکہ سمیت پوری دنیا حیران رہ گئی۔ امریکہ نے جانچ کا بھی حکم دیا تھا چونکہ اسرائیل کی اس درندگی میں قریب 112 افراد شہید ہوگئے تھے۔
واضح رہے کہ غزہ اسرائیل جنگ میں اب تک 31 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں اور قریب 72ہزار زخمی حالت میں ہیں ۔وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فورسز امداد کیلئے قطار میں کھڑے ہوئے لوگوں کو بھی نشانہ بنارہی ہے اور قتل عام کررہی ہے۔وہیں یونیسف کا کہنا ہے کہ غذائی قلت کی وجہ سے غزہ کے ایک اسپتال میں 15 نوزائیدہ بچوں نے دم توڑ دیا ہے۔ادھر امریکہ کی نائب صدر کملا ہیرس نے اسرائیل کے جنگی کابینہ کے اجلاس میں شرکت کی ہے جہاں انہوں نے عارضی جنگ بندی کی بات ضرور کی ہے لیکن مستقل جنگ بندی سے انکار کردیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔