بائیں سے: جھارکھنڈ سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں پُنڈی سارو، ہینریتا ٹوپّو، پرینکا کماری، پورنیما نیتی اور جوہی کماری نے تین ہفتوں کے ہاکی کیمپ میں شرکت کے لیے امریکی ریاست ورمونٹ کے مڈل بری کالج گئیں۔(تصویر بشکریہ امریکی قونصل خانہ، کولکاتہ)
مصنفہ- کریتیکا شرما
East India Women’s Hockey Leadership Camps:کھیلوں کی حیثیت ایک عالمگیر زبان کی ہے۔ اس کے ذریعے ہونے والے ثقافتی تبادلے زندگی بدل سکنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ کولکاتا میں واقع امریکی قونصل خانہ نے ہاکی سے لگاؤ اور سول سوسائٹی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سرکاری حکام کے ساتھ استوار پائیدار تعلقات کو بروئے کار لاتے ہوئے ۲۰۱۸ ءاور ۲۰۲۰ ءمیں ایسٹ انڈیا ویمنس ہاکی اور لیڈرشپ کیمپس کا آغاز کیا۔
مذکورہ قونصل خانہ میں تعینات عوامی امور افسر ایڈرین پریٹ کہتے ہیں’’ایمانداری سے بتائیں تو ہمیں قطعاً اس کا اندازہ نہیں تھا کہ ہماری بہادر خواتین اتنے چھوٹے چھوٹے گاؤں سے آتی ہیں۔ ہاں ہم نے سنا تھا کہ یہ بہت دور دراز علاقے ہیں جہاں روزگار کے مواقع بہت کم ہیں۔ اسی کے سببایسے علاقوں کے نوجوانوں میں شدت پسندی کی راہ اختیار کرنے، چھوٹے چھوٹے بچوں کی اسمگلنگ کر کے ان سے کام کروانے، بندھوا مزدور بنائے جانے یا پھر زبردستی شادی کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔لیکن ہم اس امر سے بھی بخوبی واقف تھے کہ بھارت میں ہاکی کتنا مقبولِ عام کھیل ہے۔‘‘
غالباً یہی وجہ ہے کہ ورمونٹ کے مڈلبری کالج میں تین ہفتوں کے ہاکی کیمپ میں شرکت کرنا جھارکھنڈ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی ان پانچ بہادر جواں سال لڑکیوں کے لیے کوئی چھوٹی بات نہیں تھی۔ پُنڈی سارو، جوہی کماری، پرینکا کماری، ہینریٹا ٹوپّو اور پورنیما نیتی کو ایسٹ انڈیا ویمنس ہاکی اینڈ لیڈرشپ کیمپ ۲۰۲۰ ءکے دوسرے ایڈیشن میں شرکت کے لیے منتخب کیا گیا تھا جس کی قیادت مڈلبری کالج کے کھلاڑی کر رہے تھے۔
امریکی قونصل خانہ (کولکاتا) نے دہلی میں واقع انسداد انسانی اسمگلنگ این جی او شکتی واہنی کی شراکت داری کے علاوہ جھارکھنڈ ہاکی فیڈریشن، جنوب مشرقی ریلویز، جھارکھنڈ پولیس اور امریکی وزارت خارجہ کے بیورو برائے تعلیمیو ثقافتی امور کے تعاون سے۲۰۱۸ءمیں ایسٹ انڈیا ہاکی پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ اس کا مقصد جھارکھنڈ میں جواں سال لڑکیوں اور خواتین میں کمیونٹی کی قیادت کے جذبے کو فروغ دینا اور انسانی اسمگلنگ اور خواتین کے خلاف تشدد پر قدغن لگانا ہے۔
کھلاڑیوں سے تعارف
منتخب کھلاڑیوں نے گرچہ کافی مشکلات کا سامنا کیا ہے مگر ہاکی سے لگاؤ نے انہیں ایک دھاگے میں پروئے رکھا ہے۔ جھارکھنڈ کے ضلع گُملا سے تعلق رکھنے والی پرینکا کماری نے بانس کے ڈنڈے سے ہاکی کھیلنا سیکھا۔ ان کے والد فالج کے شکار ہیں اور ان کی والدہ کنبے کی واحد کفیل ہیں۔ پرینکا بتاتی ہیں کہ انہیں اپنی تعلیم کا سلسلہ با دل ناخواستہ بیچ میں چھوڑ کر گھروں میں کام کرنا شروع کرنا پڑا۔ وہ اپنے وہ دن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں ’’میں علی الصباح چار بجے ہی دوڑنے کے لیے نکلتی تھی۔ اس کے بعد گھنٹوں دوسروں کے گھروں میں کام کیا کرتی۔ برتن کپڑے دھوتی اور جھاڑو پوچھا لگاتی۔‘‘
ضلع کھونٹی سے تعلق رکھنے والی پُنڈی سارو نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اور وہ چار بھائی بہن ہیں۔انہیں ہاکی کھیلنے کی ترغیب
پیشہ ورانہ ہاکی کھلاڑی نکی پردھان سے ملی۔ ان کے والد ایک مزدور ہیں اور بہت مشکل سے گھر کا خرچ چلا پاتے ہیں۔
جوہی کماری کا تعلق بھی ضلع کھونٹی سے ہی ہے اور ان کے کنبے کو سخت مالی مسائل درپیش ہیں۔ان کے والد کو نشہ کی لت ہے اور ان کی والدہ یومیہ اجرت پر کام کرتی ہیں۔ جوہی کا مقصد ہاکی کھیل کر گھر کی مالی حالت بہتر کرنا ہے۔
ضلع سِمڈیگا سے تعلق رکھنے والیہینریٹا ٹاپّو نے بھی جوہی کی طرح اپنے گھر کو غربت و افلاس کی دلدل سے نکالنے کے لیے ہاکی کھیلنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس کھیل کو مالی آمدنی کا ذریعہ سمجھ کر کھیلناشروع کیا تھا، وہ اب سینئر کھلاڑیوں کے ساتھ تربیت حاصل کرنے کے نتیجے میں ایک جنون بن گیا ہے۔
سِمڈیگا سے ہی تعلق رکھنے والی پورنییما نیتی کو بھارتی قومی ہاکی ٹیم کی سابق کپتان اسونتا لاکڑا سے ہاکی کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کی ترغیب ملی۔ گھر چلانے کے لیے ان کے والدین دوسرے کے کھیتوں میں بطور مزدور کام کرتے ہیں۔ وہ بیان کرتی ہیں ’’مجھے یقین ہی نہیں ہو رہا ہے کہ مجھے اتنی دور دوسرے ملک کا سفر کرنے کا موقع بھی کبھی ملے گا۔ میرے خوابوں کی اڑان تو بس سِمڈیگا تک ہی محدود تھی۔‘‘
جھارکھنڈ سے کئی ہونہار قومی اور بین الاقوامی خواتین ہاکی کھلاڑی سامنے آئی ہیں۔ یہیں سے تعلق رکھنے والی نکی پردھان اور سلیمہ ٹیٹے کو بین الاقوامی ہاکی مقابلہ (ٹوکیو اولمپک ۲۰۲۰ء) میں بھارت کی نمائندگی کرنے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
کھیل کیمپ کے فیضانات
بین الاقوامی سطح کی فیلڈ ہاکی کے گُر سیکھنے کے علاوہ کیمپ میں حصہ لینے والی لڑکیوں کو قیادت، عوامی گفتگو، مہارت اور خود کے دفاع کی بھی تربیت دی گئی۔ پریٹ کہتے ہیں ’’گو کہ ان کیمپوں کا اصل مقصد شرکاء کو ہاکی کے کھیل کی باریکیوں سے روشناس کرانا تھا مگر ہم چاہتے تھے کہ وہ مضبوط اور با ہمت قائدین بھی بنیں۔‘‘
ان تمام پیشہ ورانہ کامیابیوں کے علاوہ ان لڑکیوں کے لیے یہ کیمپ کئی معنوں میں ’’پہلا ہونے‘‘ کا درجہ رکھتا تھا۔ ان کھلاڑیوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار قومی اور بین الاقوامی طیاروں میں سفر کیا، امریکی قومی خواتین ہاکی ٹیم کے ساتھ ہاکی کھیلی، امریکی شہر بوسٹن میں بوسٹن ریڈ ساکس اور نیو یارک یانکیز کے درمیان ہونے والا بیس بال میچ دیکھا، چار جولائی (امریکی یوم آزادی) کی تقریبات میں شرکت کی اور امریکہ میں واقع بھارتی سفارت خانے کا دورہ کیا۔
جب یہ لڑکیاں امریکہ سے واپس آئیں تو جھارکھنڈ کے وزیر اعلیٰ ہیمنت سورین نے انہیں ملاقات کے لیے مدعو کیا تاکہ دیہی طبقات کی ترقی کے لیے مزید ایسے اقداماتکیے جائیں۔ امریکہ جانے سے پہلے ان لڑکیوں نے بھی یہی خواب دیکھا تھا۔ جوہی کہتی ہیں ’’میں اپنے تجربات اور جو کچھ میں نے سیکھا ہے وہ اپنی کمیونٹی (بالخصوص لڑکیوں) کے ساتھ ساجھا کرناچاہتی ہوں۔میں ان کو اس کھیل (ہاکی) کے بارے میں بتانا چاہتی ہوں۔ اپنے تمام تر مسائل کے باوجود یہ کھیلانہیں زندگی میں بڑے بڑے خواب دیکھنے اور ان کو حقیقت میں تبدیل کرنے کی قوت عطا کرے گا۔‘‘
شکتی واہنی کے بانی رشی کانت کے مطابق وقت کے اعتبار سے یہ کیمپ نہایت ہی اہمیت کا حامل تھا۔ ان کا کہنا تھا ’’عالمی وباء ہم سب کے لیے ایک بہت ہی مشکل وقت تھا۔دو برسوں تک بچے اسکول نہیں جا سکے۔ نتیجتاً رسمی تعلیمی کو بہت بڑا جھٹکا لگا اور پڑھائی چھوڑنے والوں کی شرح میں اضافہ ہوا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ بچہ مزدوری اوراسمگلنگ میں بھی اضافہ ہوا۔ ان ہاکی کھلاڑیوں کو انسانی اسمگلنگ اور صنفی تشدد سے نمٹنے کی بھی تربیت دی گئی تھی اور ہمیں یقین ہے کہ یہ اپنے طبقات کی لڑکیوں کو بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔‘‘
پریٹ بیان کرتے ہیں ’’ایسٹ انڈیا ہاکی پروگرام ہماری رابطہ سازی اور شراکت داری کا چہرہ بن کر سامنے آیا ہے جس نے ریاست میں انسداد انسانی اسمگلنگ اور صنفی تشدد کے خلاف ہماری دہائیوں پر محیط کوششوں کو اجاگر کیا ہے۔‘‘
مڈلبری کالج میں کھیل کود کی اسسٹنٹ ایتھلیٹک ڈائریکٹر کیتھرین ڈی لورینزو کے مطابق کالج کے جن طلبہ نے اس پروگرام میں شرکت کی تھی وہ ۲۰۲۳ء کے اواخر میں جھارکھنڈ میں منعقد ہونے والی اگلے ’’ایسٹ انڈیا ہاکی پروجیکٹ‘‘ کے اپنے دورہ کے لیے بہت پُرجوش ہیں۔
(بشکریہ سہ ماہی اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی)
۔۔۔ بھارت ایکسپریس