فوج نے عمران خان کے ساتھ معاہدے سے انکار کیا۔
راولپنڈی: پاک فوج نے ملک کے سابق وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کسی بھی معاہدے کے امکان کو مسترد کر دیا ہے۔ فوج کے اس موقف کے بعد عمران خان کے سیاسی مستقبل کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ سابق وزیر اعظم ملک کی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیک ڈور مذاکرات کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ ایک برطانوی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق سینئر فوجی افسران نے خان سے کسی بھی سطح پر بات چیت کے خیال کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی نے راولپنڈی کی ادیالہ جیل میں پارٹی رہنماؤں سے ملاقات میں فوج سے بات کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ خان نے کہا تھا کہ وہ اب بھی ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کو تیار ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان اس سے قبل اپنی موجودہ صورتحال اور قید کا ذمہ دار فوج اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو ٹھہرا چکے ہیں۔ عمران خان فوج پر امریکی حکومت کے ساتھ مل کر انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کا الزام بھی لگا چکے ہیں۔
پاکستانی فوج کے ایک ذریعے نے کہا، ’’خان پر عدالتی مقدمات چل رہے ہیں اور وہ فوج سے کسی ڈیل کی توقع نہیں کر سکتے، وہ چاہتے ہیں کہ ہر کوئی قانون کی حکمرانی پر عمل کرے، لیکن وہ خود ایسا نہیں کرتے اور فوج سے بات چیت کے لیے دباؤ ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے اپنی رہائی کو یقینی بنانے کے لیے سمجھوتے کا مطالبہ کرتے ہوئے غیر مشروط بات چیت کی پیشکش بھی کی۔‘‘
خان کے قریبی لوگوں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ حکمران حکومت سے نہیں بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ سے نمٹنا چاہتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ اصل طاقت اور اختیار طاقتور فوج کے پاس ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک لیڈر نے کہا، ’’فوج کے ساتھ کوئی بھی معاہدہ یا جڑاؤ اصولوں اور عوام کے مفادات پر مبنی ہو گی، نہ کہ ذاتی فائدے کے لیے۔‘‘
بتا دیں کہ عمران خان پر سو سے زائد مقدمات چل رہے ہیں اور وہ پہلے ہی کرپشن کے الزام میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے جیل میں ہیں۔ ان پر مئی 2023 کے فسادات اور غداری سے متعلق معاملوں میں فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جا سکتا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔