Bharat Express

Afzal Ansari on Minority budget: اقلیتی تعلیم کے بجٹ میں کمی مسلمانوں کو ایجوکیشن سے دور کرنے کی سرکاری ذہنیت کا واضح ثبوت:افضال انصاری

غازی پور سے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ایم پی افضال انصاری نے جمعرات کو وزارت تعلیم کے گرانٹ کے مطالبات پر بحث کے دوران حکومت کو سخت گھیر لیا۔ افضال نے ایس سی ،ایس ٹی اور اوبی سی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے بجٹ میں کٹوتیوں پر سوالات اٹھائے۔

AFZAL ANSARI

غازی پور سے سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے ایم پی افضال انصاری نے جمعرات کو وزارت تعلیم کے گرانٹ کے مطالبات پر بحث کے دوران حکومت کو سخت گھیر لیا۔ افضال نے ایس سی ،ایس ٹی اور اوبی سی کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے بجٹ میں کٹوتیوں پر سوالات اٹھائے۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں اپنے خطاب کے دوران بھی شعر و شاعری کا بھرپور استعمال کیا۔ افضال انصاری نے اپنے خطاب کے بالکل آغاز میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کا حوالہ دیا اور کہا کہ غریب ہو یا امیر، سب کو یکساں تعلیم ملنی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی کے لیے بجٹ میں اضافہ کرنے کی ضرورت تھی، وہیں ان کے لیے رکھے گئے بجٹ میں بہت زیادہ کٹوتی کی گئی ہے۔ افضال انصاری نے کہا کہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر فاؤنڈیشن کا بجٹ پہلے ہی کم تھا۔ جو بجٹ 40 کروڑ روپے تھا، اب اسے کم کر کے 30 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔ اقلیتی تعلیم کے بجٹ میں بھی اس وقت کٹوتی کی گئی جب اس میں بڑے پیمانے پر اضافے کی ضرورت تھی۔

افضال انصاری نے کہا کہ مفت کوچنگ کے ذریعہ ایس سی-ایس ٹی اور او بی سی کی مدد کے لئے دیا گیا بجٹ پہلے ہی کم تھا۔ اب اسے 47 کروڑ روپے سے کم کر کے 35 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلے اعلیٰ سطح کی تعلیم کے میدان میں ایس سی-ایس ٹی کے لیے 111 کروڑ روپے کا انتظام تھا، اس میں بھی بڑی کٹوتی کی گئی ہے۔ افضال انصاری نے  کہا کہ ‘میرے آنگن میں دیوتا کب اتریں گے، میں ساری زندگی یہی سوچتا رہا اور میرے بچوں نے اس چاند کو چھو لیا، جس کی میں ساری زندگی پوجا کرتا رہا’۔

انہوں نے کہا کہ آج دنیا تعلیم اور ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کی معراج پر پہنچ رہی ہے۔ افضال نے کہا کہ ایس سی-ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کی تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ کیا جانا چاہیے۔ لیکن اسے بڑے پیمانے پر کم کر دیا گیا۔ یہ خراب ذہنیت کا ثبوت ہے۔ انہوں نے دوہرے نظام تعلیم کے نفاذ کی بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ایک طرف تعلیم ہے جو دیہات میں رہنے والے غریبوں کو سرکاری سکولوں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے۔ آج بھی جب کوئی غریب بچہ ہاتھ میں کٹورا اور پیٹھ پر بوری لے کر اسکول جاتا ہے تو اسے ‘ک’ سے کبوتر، ‘خ ‘سے خرگوش اور’گ’ سے گدھا سکھایا جاتا ہے۔

افضال انصاری نے کہا کہ دوسری طرف ماڈرن، کانونٹ اسکول ہیں جہاں انگریزی میڈیم سے تعلیم دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب بچے دونوں اسکولوں میں تعلیم حاصل کر کے اوپر جاتے ہیں اور جب مقابلہ ہوتا ہے تو جدید تعلیم کے حامل بچے کامیاب ہوتے ہیں اور حکومت کی طرف سے فراہم کردہ تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی بنیاد کمزور رہ جاتی ہے۔ دوہرے نظام کو کیسے ختم کیا جائے یہ دیکھنا باقی ہے۔ افضال انصاری نے کہا کہ غریبوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم نہیں دلائی جا سکتی۔ غریب سب کچھ بیچ دے تو بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتا۔انہوں نے کہا کہ حکومت دوہرے نظام تعلیم کے خاتمے کے لیے پہل کرے۔ ایس سی-ایس ٹی، او بی سی اور اقلیتوں کو پہلے سے فراہم کی گئی سہولتوں میں کٹوتی سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ دوہرے نظام کو فروغ دے رہے ہیں۔ افضال نے اشعار کا سہارا لیتے ہوئے کہا کہ

پتھر کے جگر والوں، غم میں وہ روانی ہے

خواد راہ بنا لے گا ،بہتا ہوا پانی ہے

  کمزور کی آہوں کو، مظلوم کی آہوں کو کمزور سمجھ لینا

اب ظالم حکومت کے جانے کی نشانی ہے

بھارت ایکسپریس۔