بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے 8 جولائی 2024 کو روس کا دورہ کیا تھا جس پر امریکہ نے ایک بار پھر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ امریکی پارلیمنٹ میں کارروائی کے دوران اسسٹنٹ سیکریٹری ڈونلڈ لو نے روس کے دورے کے وقت پر سوالات اٹھائے۔ ڈونالڈ لو کے بیان پر وزارت خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے کہا کہ ہمیں سمجھنا چاہئے کہ ہندوستان کے روس کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں جو باہمی مفادات پر مبنی ہیں۔وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “اس دنیا کے تمام ممالک کو کسی کے ساتھ بھی تعلقات قائم کرنے کی آزادی ہے، سب کو اس سے آگاہ ہونا چاہیے اور اس کی تعریف بھی کرنی چاہیے۔
#WATCH | On US diplomat Donald Lu’s remark on India, MEA Spokesperson Randhir Jaiswal says, “We must understand that India has a longstanding relationship with Russia that is based on mutuality of interests. In a multipolar world, all country has freedom of choice. It is… pic.twitter.com/6jnijiQWYo
— ANI (@ANI) July 25, 2024
ڈونلڈ لو نے اتفاق کیا کہ بھارت سستے ہتھیاروں کے لیے روس پر منحصر ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت روس سے گیس خریدتا ہے اور اس رقم کو یوکرین میں لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ وزارت خارجہ نے اس پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔اور کہا ہر ملک کو آزادی ہے کہ ہو کسی بھی ملک کے ساتھ اپنے مفاد میں تعلقات کو استعمال کرے۔یاد رہے کہ جس وقت پی ایم مودی روس گئے تھے، اس وقت امریکہ میں نیٹو کانفرنس چل رہی تھی۔ اس سے قبل بھی وزارت خارجہ امریکہ کی جانب سے اٹھائے گئے سوالات کو مسترد کر چکی ہے۔ حال ہی میں بھارت نے واضح کردیا تھا کہ وہ یوکرین روس جنگ کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے حق میں ہے۔
روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کے درمیان نیٹو کے ارکان نے رواں ماہ ایف 16 لڑاکا طیارے اور پانچ ریڈار سسٹم بھی یوکرین بھیجنے کا اعلان کیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بدھ (10 جولائی 2024) کو یہ اطلاع دی تھی۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اگست 2023 میں یوکرین کو ان طیاروں کی فراہمی پر رضامندی اور منظوری دی تھی۔اس کے علاوہ نیٹو اجلاس میں یہ اعادہ کیا گیا تھا کہ یوکرین کو ہر محاذ پر بھرپور مدد کی جائے گی اور کسی بھی طرح سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔
بھارت ایکسپریس۔