Bharat Express

Supreme Court

چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ، جسٹس سوریہ کانت، ایم ایم سندریش اور منوج مشرا نے اکثریتی فیصلہ سنایا، جب کہ جسٹس جے بی پاردی والا نے اختلاف کیا۔

چیف جسٹس آف انڈیا کا ماننا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہندوستان برطانوی دور کی وراثت سے آگے بڑھے۔ ان کا ماننا ہے کہ قانون اندھا نہیں ہے اور وہ سب کو یکساں طور پر دیکھتا ہے۔ یہ سی جے آئی ہی تھے جنہوں نے انصاف کی دیوی کے مجسمے کو تبدیل کرنے کی بات کی تھی۔

قانون کی اس شق میں کہا گیا ہے کہ وہ لوگ جو بنگلہ دیش سمیت مذکورہ علاقوں سے یکم جنوری 1966 یا اس کے بعد اور 25 مارچ 1971 سے پہلے آسام آئے ہیں اور یہاں مقیم ہیں، وہ 1985 کے شہریت ترمیمی قانون کے تحت شہریت کے اہل ہوں گے۔

یہ بات بھی قابل غور ہے کہ 64 سالہ جسٹس سنجیو کھنہ کی بطور سی جی آئی مدت کار صرف 6 ماہ ہوگی۔اور جسٹس کھنہ 13 مئی 2025 کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ وہ سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے 65 فیصلے دے چکے ہیں۔ اپنے دور میں وہ 275 بنچوں کا حصہ رہے ہیں۔

اگر علامتی طور پر دیکھا جائے تو چند ماہ قبل نصب انصاف کی دیوی کا نیا مجسمہ واضح پیغام دے رہا ہے کہ قانون اندھا نہیں ہوتا۔ وہ آئین کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ یہ مجسمہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی پہل پر لگایا گیا ہے۔

عدالت نے ڈی ڈی اے چیئرمین کو غیر قانونی درختوں کی کٹائی کے معاملے میں 22 اکتوبر تک حلف نامہ جمع کرانے کو کہا ہے۔

درخواست گزار نے کہا کہ اس طرح کی اسکیم سے انتخابی عمل دینے اور لینے کا عمل بن جاتا ہے۔ مفت سکیموں کی بڑھتی ہوئی روایت اور قبل از انتخابات کے وعدوں کے باوجود الیکشن کمیشن اس عمل کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ اس میں کہا گیا کہ انتخابات اس طرح کرائے جائیں کہ جمہوریت کی سالمیت برقرار رہے۔

اعظم خان کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے دلیل دی کہ لیز کو بند کرنے سے پہلے کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا۔ ٹرسٹ کو جواب دینے کے لیے پہلے نوٹس دینا چاہیے تھا۔

عرضی گزار رویندر کمار شرما کی طرف سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی پیش ہوئے۔ جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی والی بنچ نے کہا کہ سپریم کورٹ براہ راست سماعت نہیں کرے گا۔ پہلے اسے ہائی کورٹ میں سنا جائے۔

درخواست میں سپریم کورٹ کو بلڈوزر ایکشن سے متعلق طریقہ کار پر عمل کرنے کی ہدایت دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ جس میں کہا گیا کہ ملک میں کہیں بھی بلڈوزر ایکشن کی اجازت صرف ڈسٹرکٹ ججز یا مجسٹریٹس کی منظوری سے دی جائے۔ کس کے خلاف اور کیوں بلڈوزر ایکشن لیا جا رہا ہے، یہ بھی منظر عام پر آنا چاہیے۔