Bharat Express

Sheikh Hasina

حسینہ پیر کو کرفیو کے پہلے دن پیپلز پیلس کے اندر چھپی رہیں۔ باہر شہر کی سڑکوں پر ایک ہجوم جمع ہو گیا۔ احتجاجی رہنماؤں کی کال پر ہزاروں افراد شہر کے وسط میں مارچ کے لیے جمع ہوئے۔

بہار کے اقلیتی بہبود کے وزیر زماں خان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ہر شعبے کی ترقی کی۔ ہمارے لیڈران ہمیشہ بھائی چارے اور ہم آہنگی کے حق میں سوچتے ہیں۔

پروفیسر راجو نے کہا، ’’ہم نے طلباء کو یقین دلایا ہے کہ اگر انہیں کیمپس میں قیام کے دوران کسی اور دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، تو یونیورسٹی اسے حل کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گی۔‘‘

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ برطانیہ میں ان کی سیاسی پناہ کی باقاعدہ درخواست پرکارروائی کی جا رہی ہے تاہم برطانیہ کی جانب سے ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے۔ دوسری جانب امریکہ نے بھی شیخ حسینہ کے لیے اپنے دروازے بند کردیئے ہیں اور امریکہ نے شیخ حسینہ کا ویزا منسوخ کردیا ہے۔

پانچ اگست 2024 کو شیخ حسینہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن پر بھڑکنے والے تشدد کے درمیان انہیں نہ صرف وزیر اعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا بلکہ ملک چھوڑ کر ہندوستان میں پناہ لینی پڑی۔ اس قدم کے ساتھ بنگلہ دیش میں ان کی 15 سالہ حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔

بنگلہ دیش میں تختہ پلٹ کے بعد شیخ حسینہ ہندوستان پہنچی ہیں۔ ابھی وہ ہنڈن ایئربیس کے گیسٹ ہاؤس میں ٹھہری ہوئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابھی کچھ دن وہ ہندوستان میں ہی رہ سکتی ہیں۔ ان کے کچھ رشتہ دار جو ساتھ آئے تھے، وہ لندن روانہ ہوچکے ہیں۔

دو طرفہ بات چیت کے دوران پی ایم مودی نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ہندوستانی روپے میں تجارت شروع ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان گنگا ندی پر دنیا کا سب سے طویل ریور کروز بھی کامیابی سے چلایا گیا ہے۔

بنگلہ دیش میں ریزرویشن کی آگ اس قدر بھڑک اٹھی کہ 5 اگست کو شیخ حسینہ کے استعفیٰ دے کر ملک سے فرار ہونے کے بعد مظاہرین کے ایک ہجوم نے وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر ہی حملہ کر دیا۔ بھارتی سیکیورٹی اداروں نے شیخ حسینہ کو بحفاظت واپس لانے کے لیے پہلے ہی فول پروف تیاریاں کر رکھی تھیں۔

شیخ حسینہ کی پیدائش 1947 میں ہوئی تھی۔ وہ شیخ مجیب الرحمٰن کی سب سے بڑی بیٹی تھیں۔ وہ کبھی سرگرم سیاست میں نہیں آتیں، اگر 1975 میں ان کے والد کا قتل نہ کیا گیا ہوتا۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ جرمنی شفٹ ہوچکی تھیں، مگر 49 سال پہلے بنگلہ دیش میں جو ہوا، اس نے انہیں بنگلہ دیش کی سیاست میں سب سے مضبوط خاتون بننے کے لئے مجبورکردیا۔

منڈی لوک سبھا حلقہ سے رکن پارلیمنٹ نے پوسٹ میں مزید لکھا، "مسلم ممالک میں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے، یہاں تک کہ خود مسلمان بھی نہیں۔ افغانستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور برطانیہ میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ افسوسناک ہے۔