Bharat Express-->
Bharat Express

Andhra Pradesh

آندھرا پردیش کے وزیر اعلیٰ این چندرابابو نائیڈو نے واضح کیا ہے کہ تروملا مندر کی گورننگ باڈی تروملا تروپتی دیوستھانم (TTD) میں صرف ہندوؤں کو ہی ملازمت دی جانی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو کہیں اور مواقع فراہم کیے جائیں گے۔

کے وی بی انٹرنیٹ بینکنگ اور موبائل بینکنگ کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ کے وی بی ڈی لائٹ، بینک کی موبائل بینکنگ ایپ 150+ خصوصیات کے ذریعے مالیاتی اور غیر مالیاتی خدمات کی سہولت فراہم کرتی ہے۔

آندھرا پردیش سب سے بڑا وصول کنندہ ہے جس نے آفات کے تخفیف اور ردعمل کے لیے 608 کروڑ روپے منظور کیے ہیں۔ مرکزی امداد نیشنل ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ (این ڈی آر ایف) سے مختص کی گئی ہے۔

تلنگانہ کے بعد اب آندھرا پردیش حکومت نے بھی مسلم سرکاری ملازمین کو رمضان کے مہینے میں ایک گھنٹہ پہلے دفتر سے نکلنے کی اجازت دے دی ہے۔

کچن میں چائے لینے گئی سروجنی دیوی شور سن کر واپس آئیں اور مداخلت کرنے کی کوشش کی۔ بتایا جاتا ہے کہ کیرتی نے ان پر بھی حملہ کیا۔ واردات کو انجام دینے کے بعد ملزم نے عینی شاہد سیکورٹی گارڈ کو دھمکی دیتے ہوئے موقع سے فرار ہوگیا۔

مرنے والوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ واقعہ تروپتی میں وشنو نواس اور رامانائیڈو اسکول علاقے کے قریب پیش آیاہے۔ کئی شدید زخمیوں کو رویا اسپتال لے جایا گیا، جہاں ان کا علاج جاری ہے۔

وزیر اعظم نے کہا کہ "اب آندھرا پردیش کو مستقبل کی ٹیکنالوجیز کا مرکز بننے کا وقت آگیا ہے"۔ انہوں نے سبز ہائیڈروجن جیسی ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز میں آگے بڑھنے کی اہمیت پر زور دیا۔  مودی نے نوٹ کیا کہ نیشنل گرین ہائیڈروجن مشن 2023 میں شروع کیا گیا تھا۔

بتا دیں کہ امریکی محکمہ انصاف نے الزام لگایا ہے کہ اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے شمسی توانائی کے سازگار معاہدوں کے لیے ہندوستانی حکام کو 250 ملین امریکی ڈالر رشوت دینے کا منصوبہ بنایا ہے۔ بھارتی گروپ نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔ ریڈی نے چیف منسٹر کے طور پر اپنے دور میں کئی بار اڈانی سے ملاقات کا ذکر کیا، انہوں نے کہا کہ اس طرح کی ملاقاتیں کاروباری لیڈروں اور ریاستی سربراہوں کے لیے معمول کی بات ہیں۔

آندھرا پردیش کے اننت پور ضلع کے گارالڈائن منڈل میں تھلاگاسپالے کے قریب ایک آر ٹی سی بس اور زرعی مزدوروں کو لے جانے والے آٹو کے تصادم سے سات افراد ہلاک ہو گئے۔

اس پالیسی کو اپنانے والی 13 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے، چھتیس گڑھ، ہریانہ، ہماچل پردیش اور مدھیہ پردیش نے اسے 2005 میں واپس لے لیا۔ پروفیسر سرینواس گولی نے کہا کہ اس پالیسی سے دستبرداری کی ایک بڑی وجہ پیدائش کے وقت جنسی تناسب میں کمی تھی۔