سپریم کورٹ میں مدرسہ ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ، چیف جسٹس نے کہا ’700 سالہ تاریخ برباد نہیں کر سکتے‘
سپریم کورٹ میں 22 اکتوبر الٰہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج دینے والی عرضیوں پر سماعت ہوئی ،جس میں یوپی مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ 2004 کو غیر آئینی قرار دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں عدالت عظمیٰ نے منگل کے روز سبھی فریقین کی دلیلیں سننے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا ہے۔
سماعت کے دوران یوپی حکومت نے مدرسہ ایکٹ کی حمایت کی
اتر پردیش حکومت نے عدالت میں اپنا موقف پیش کیا۔ حکومت کی جانب سے ایڈوکیٹ اے ایس جی کے ایم پیش ہوئے۔ نٹراجن نے کہا کہ یوپی حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول کیا ہے اور اس کے خلاف کوئی درخواست داخل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ جہاں تک مدرسہ ایکٹ کی درستگی کا تعلق ہے، ہم نے الہ آباد ہائی کورٹ میں اس ایکٹ کی حمایت میں دلیل دی تھی اور آج بھی مدرسہ ایکٹ کے تعلق سے ہمارا وہی موقف ہے۔
’مدرسہ ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کرنا درست نہیں‘
یوپی حکومت کے وکیل نے کہا کہ مدرسہ ایکٹ کو مکمل طور پر منسوخ کرنے کا فیصلہ درست نہیں، صرف ایکٹ کی ان دفعات پر نظرثانی کی جائے جو بنیادی حقوق کے خلاف ہیں، ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرنا مناسب نہیں ہے۔ وکیل نے کہا کہ مدرسہ ایکٹ میں تبدیلیاں ضرور کی جا سکتی ہیں، لیکن اسے مکمل طور پر منسوخ کرنا درست نہیں۔
’سیکولرازم کا مطلب ہے جیو اور جینے دو‘
سی جے آئی ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا کہ سیکولرازم کا مطلب ہے جیو اور جینے دو انہوں نے پوچھا کہ کیا آر ٹی ای خاص طور پر مدارس پر لاگو ہوتا ہے یا نہیں۔ انہوں نے کہا کیا ہم ہندوستان میں کہہ سکتے ہیں کہ تعلیم کے معنی میں مذہبی تعلیم شامل نہیں ہوسکتی؟ یہ بنیادی طور پر ایک مذہبی ملک ہے۔ سی جے آئی نے پوچھا کہ کیا مدارس کو ریگولیٹ کرنا آپ کے قومی مفاد میں ہے؟ انہوں نے صاف کہا کہ آپ 700 سالہ تاریخ کو اس طرح تباہ نہیں کر سکتے۔ سی جے آئی نے کہا کہ اگر ہم ہائی کورٹ کے حکم کو برقرار رکھتے ہیں تب بھی بچوں کے والدین انہیں مدرسہ بھیجیں گے۔
بھارت ایکسپریس