خواتین نے کہا ممتا حکومت پیسوں سے ہماری عزت کی قیمت مت لگائیں
Sandesh Khali: بنگال کی سندیش کھالی ان دنوں خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے حوالے سے خبروں میں ہے۔ ریاستی حکومت کی جانب سے معاملے کی جانچ کے لیے قائم کیے گئے عارضی کیمپوں میں گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 1,300 سے زیادہ شکایات موصول ہوئی ہیں۔ جس میں زمینوں پر قبضے کے 400 سے زائد کیسز ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ حکام نے جنسی ہراسانی کی شکایات پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
جب میڈیا نے خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے معاملے کے بارے میں حکام سے جاننا چاہا تو ان کا کہنا تھا کہ کیمپ ختم ہونے کے بعد ہی اس پر کچھ کہا جا سکتا ہے۔ جب کہ یہ سارا معاملہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کا ہے۔ وہیں ایس ٹی کمیشن نے کہا کہ خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق 50 سے زیادہ معاملے سامنے آئے ہیں۔ ریاستی حکومت کے اہلکار فی الحال خواتین کی جنسی ہراسانی کے معاملے سے کنارہ کشی اختیار کر رہے ہیں۔ سرکاری کیمپوں میں تعینات کوئی بھی افسر اس معاملے پر بولنے سے گریز کر رہا ہے۔
حکومت ریلی نکال کر توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے
جانکاری کے مطابق حکومت نے حکام سے اس معاملے پر خاموش رہنے کو کہا ہے۔ اتوار کو ممتا حکومت کے وزراء نے سندیش کھالی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران وزراء کو خواتین کی زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ممتا حکومت نے اس معاملے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے 10 مارچ کو کولکتہ میں ایک بڑی ریلی منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لوک سبھا انتخابات سے پہلے سندیش کھالی میں خواتین کی جنسی ہراسانی کا معاملہ ممتا حکومت کے گلے کا کانٹا بن گیا ہے۔
خواتین ناراض کیوں ہوئیں؟
اس سے قبل اتوار 25 فروری کو پولیس نے فیکٹ فائنڈنگ کے ارکان کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہ تمام لوگ سندیش کھالی جا کر خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی جانکاری حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اس ٹیم میں پٹنہ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس سمیت کئی لوگ تھے۔ 25 فروری کو ممتا حکومت کے دو وزیر پارتھا بھومک اور سوجیت باسو سندیش کھالی پہنچے تھے۔ چنانچہ انہیں خواتین کے غصے کا شکار بننا پڑا۔ جب وزراء نے معاملہ حل کرنے اور قبضہ شدہ زمینوں کے بدلے معاوضہ اور رقم فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی تو خواتین مشتعل ہو گئیں۔ خواتین نے کہا کہ ممتا حکومت معمولی پیسوں سے ہماری عزت کی قیمت طے کر رہی ہے۔
بھارت ایکسپریس