ہلدوانی میں کیسے بگڑے حالات ، کن وجوہات کو لے کر ہواتشدد ؟ اسکول مکمل طور پر بند
ملک کی سب سے پرامن ریاستوں میں سے ایک مانے جانے والے اتراکھنڈ ان دنوں تشدد کی لپیٹ میں ہے۔ ریاست کے نینی تال ضلع کے ہلدوانی میں تشدد ہوا ہے ۔جس کی وجہ سے 160 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔ زخمیوں میں پولیس اہلکار اور میونسپل اہلکار بھی شامل ہیں۔ ہلدوانی میں تشدد کی آگ شہر کے بنبھول پورہ علاقے تک پھیل گئی۔ شرپسندوں نے نہ صرف پتھراؤ کیا بلکہ گاڑیوں کو بھی آگ لگا دی۔
ہلدوانی میں حالات اتنے سنگین ہو گئے کہ انتظامیہ کو معاملے کو پرسکون کرنے کے لیے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کرنے پڑے۔ فی الحال امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کرفیو نافذ ہے۔ ہلدوانی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے دارالحکومت دہرادون میں ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ کی۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلدوانی میں ایسا کیا ہوا کہ حالات قابو سے باہر ہو گئے اور تشدد پھیل گیا۔
نینی تال کی ڈی ایم وندنا سنگھ نے کہا کہ
#WATCH | Haldwani violence | DM Nainital, Vandana Singh says, “…After the HC’s order action has been taken against encroachment at various places in Haldwani…Everyone was given notice and time for hearing…Some did approach the HC some were given time while some were not… pic.twitter.com/pO1K4BjN9C
— ANI (@ANI) February 9, 2024
نینی تال کی ڈی ایم وندنا سنگھ نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکم کے بعد ہلدوانی میں گزشتہ 15-20 دنوں سے مختلف مقامات پر تجاوزات کے خلاف کارروائی کی گئی۔ دیگر سرکاری زمینوں پر بھی ناجائز تجاوزات کو ختم کرنے کے لیے ضلعی سطح پر ٹاسک فورس تشکیل دی گئی ہے۔ سرکاری املاک کی حفاظت کے لیے رہنما خطوط دیے گئے ہیں اور جائیدادوں کی جی آئی ایس میپنگ کی جارہی ہے۔
ہلدوانی میں تشدد کیسے پھیلا؟
قابل ذکربات یہ ہےکہ ہلدوانی کے بنبھول پورہ علاقے میں ملک کے باغ میں ایک غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ مدرسہ اور نماز کی جگہ تھی۔ پی ٹی آئی کے مطابق میونسپل کمشنر پنکج اپادھیائے نے کہا کہ اس جگہ کے قریب تین ایکڑ زمین تھی۔جسے میونسپل کارپوریشن نے پہلے ہی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ اس کے بعد غیر قانونی مدرسہ اور نماز کی جگہ کو سیل کر دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات 8 فروری کو غیر قانونی مدرسہ اور نماز کی جگہ کو جے سی بی کی مدد سے مسمار کیا گیا۔
اس کے ساتھ ہی غیر قانونی مدرسے کو گراتے ہی تشدد شروع ہو گیا۔ ایس ایس پی پرہلاد مینی نے بتایا کہ مدرسہ اور مسجد غیر قانونی طور پر قبضہ شدہ سرکاری اراضی پر تعمیر کی گئی تھی۔ ان دونوں مقامات کو مسمار کرنے سے قبل عدالتی حکم کے بعد بڑی تعداد میں پولیس اور پی اے سی کو تعینات کیا گیا تھا۔ قابل ذکر بات یہ ہےکہ پولیس اور پی ایس سی کی موجودگی کے باوجود حالات قابو سے باہر ہوگئے اور پتھراؤ شروع ہوگیا۔
خواتین بھی سڑکوں پر آگئیں اور کارروائی کے خلاف احتجاج کیا
پی ٹی آئی کی رپورٹ کے مطابق جیسے ہی دونوں عمارتوں کو گرانے کا عمل شروع ہوا تو مشتعل مکینوں کی بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، سڑکوں پر آگئیں اور کارروائی کے خلاف احتجاج کیا۔ رکاوٹیں توڑتے ہوئے اور پولیس اہلکاروں سے بحث کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ عہدیداروں نے بتایا کہ جیسے ہی مدرسہ مسجد کو منہدم کیا گیا، ہجوم نے پتھراؤ شروع کردیا۔ اس میں میونسپل کارپوریشن کے ملازمین، صحافی اور پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں:عمران خان کی پارٹی بناسکتی ہے حکومت، شریف خاندان کو لگا بڑا جھٹکا،دیکھتے رہ گئے بلاول اور مولانا فضل الرحمن
گاڑیوں کو آگ لگا دی
عہدیداروں نے بتایا کہ صورتحال بگڑتی دیکھ کر پولیس نے فوری طور پر ہلکی طاقت کا استعمال کرکے بھیڑ کو منتشر کرنے کی کوشش کی۔ جائے وقوعہ سے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ بھلے ہی ہجوم پیچھے ہٹ گیا لیکن انہوں نے گاڑیوں کو آگ لگا ئی ۔ دیر شام تک کشیدگی مزید بڑھ گئی اور بنبھول پورہ پولیس اسٹیشن کو بھی آگ لگا دی گئی۔ اس کے بعد شہر میں کرفیو لگا دیا گیا۔
فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم
اسی دوران نینی تال کے ضلع مجسٹریٹ نے وزیر اعلیٰ دھامی کو فون پر بتایا کہ بنبھول پورہ میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور حالات کو معمول پر رکھنے کے لیے فسادیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ وزیر اعلیٰ نے سب سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے اور فسادیوں کے خلاف کارروائی کا یقین ظاہر کیا ہے۔ تشدد کی وجہ سے ہلدوانی میں دکانیں اور اسکول مکمل طور پر بند ہیں۔
بھارت ایکسپریس
بھارت ایکسپریس