Bharat Express

Gujarat Election 2022(State Profile):گجرات کی  تاریخی جیت میں مودی فیکٹر(Modi Factor) ہی پوری طرح سے چھایا رہا،کانگریس ایک بار پھر ناکام

گجرات کےریاستی وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے کہا کہ گجرات نے یہ پیغام دیا ہے کہ گجرات کے لوگ اور بی جے پی ساتھ رہیں گے۔ گجرات کے عوام نے ریاست کی توہین کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ہم گجرات کی ترقی کے لیے مزید کام کرنے کا ارادہ رکھیں گے۔

Gujarat

Gujarat Election 2022(State Profile):گجرات کی جیت کا سہرانریندر مودی(Narendra Modi) کوجاتا ہے یہ میں نہیں ان کے پارٹی کے اہم لیڈروں کا کہنا چاہئے وہ امت شاہ ، راج ناتھ سنگھ، جے پی نڈا ہی کیوں نا ہوں ۔پارٹی کے کارکناں بھی اس بات سے اعتراف کرتے ہیں۔ نریندر مودی نے گجرات میں 33ریلیاں کو سے خطاب کیااس کے برعکس کانگریس کے راہل گاندھی نے دو ہی ریلیاں کی۔

گجرات کےریاستی وزیر داخلہ ہرش سنگھوی نے کہا کہ گجرات نے یہ پیغام دیا ہے کہ گجرات کے لوگ اور بی جے پی ساتھ رہیں گے۔ گجرات کے عوام نے ریاست کی توہین کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ ہم گجرات کی ترقی کے لیے مزید کام کرنے کا ارادہ رکھیں گے۔

گجرات اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو اب تک کی سب سے بڑی کامیابی ملی ہے۔ یہ جیت بہت اہم ہے۔ اس سے پہلے کسی پارٹی نے اتنی سیٹیں نہیں جیتی ہیں۔ اس سے پہلے 2002 میں بی جے پی نے 127 سیٹیں جیتی تھیں۔ 2022 میں بی جے پی کی تاریخی جیت نے مادھو سنگھ سولنکی حکومت کا ریکارڈ بھی توڑ دیا ہے۔ سولنکی حکومت نے 1985 میں 149 سیٹیں جیتی تھیں۔

گجرات اسمبلی الیکشن نتائج کو لے کر اب کے رجحانات میں بی جے پی ایک بار پھر مکمل اکثریت کے ساتھ گجرات پر  حکومت کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔دوسری طرف، گجرات کی 182 رکنی اسمبلی میں کانگریس 50 سے بھی کم سیٹوں تک محدود دکھائی دیتی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ گجرات میں کانگریس نے بی جے پی کے خلاف لڑائی میں نہ تو طاقت دکھائی ہے اور نہ ہی جوش۔

ویسے ایک وقت تھا جب اس ساحلی ریاست میں کانگریس کی طوطی بولتی تھی۔ 1985 کے گجرات انتخابات میں کانگریس نے 55.55 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 149 سیٹیں جیت کر ریکارڈ قائم کیا تھا۔ یہ ایک ایسا ریکارڈ تھا جسے گجرات میں تقریباً تین دہائیوں سے برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی بھی نہیں توڑ سکی۔

الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے تجزیہ سے پتہ چلتا ہے کہ کانگریس واحد پارٹی ہے جس نے ریاست میں تین بار 140 یا اس سے زیادہ سیٹیں جیتی ہیں۔ اس نے 1980 کے انتخابات 141 نشستوں کے ساتھ اور 1972 کے انتخابات میں 140 نشستوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔

یہاںیہ نوٹ کرنا بھی ضروری ہے کہ 1985 کے انتخابات میں آخری بار کانگریس نے ریاست میں واحد سب سے بڑی پارٹی کے طور پر حکومت بنائی تھی۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 1990 کے اگلے انتخابات میں سب سے پرانی پارٹی کا ووٹ شیئر تقریباً 31 فیصد تک کم ہو گیا۔ اس الیکشن میں کانگریس صرف 33 سیٹوں کے ساتھ اپنی کم ترین سطح پر آگئی۔

دوسری طرف اگر ہم بی جے پی کی بات کریں تو یہ پارٹی پہلی بار ریاست میں 1995 میں 121 سیٹوں کے ساتھ برسراقتدار آئی تھی، پھر سال 2002 میں اس نے 49.85 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ 127 سیٹیں جیتی تھیں۔ ویسے، سال 1990 کے بعد سے، ریاست کے ہر اسمبلی انتخابات میں کانگریس کے ووٹ شیئر میں اضافہ ہوا ہے۔ پچھلی بار یعنی 2017 کے اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو تقریباً 43 فیصد ووٹ ملے تھے۔
2017 میں، جہاں کانگریس نے 41.4فیصد ووٹوں کے ساتھ 77 سیٹیں حاصل کیں اور 16 سیٹیں حاصل کیں۔ عام آدمی پارٹی بھی اس اسمبلی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھی اور اچھی خاصی نشستوں کا دعویٰ کر رہی تھی، لیکن رجحانات اس کے بالکل برعکس ہیں۔

2017 میں، جہاں بی جے پی 49.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ 99 سیٹوں پر تھی، اس بار وہ 52.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ 155 سیٹوں پر آگے ہے، یعنی اگر یہ رجحانات حتمی نتائج تک جائیں تو اسے 56 سیٹوں کا فائدہ ہو رہا ہے۔ گجرات کی مسلم سیٹوں پر لوگ پہلے ہی قیاس آرائیاں کر رہے تھے کہ کانگریس کو آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے قومی صدر اسد الدین اویسی کی وجہ سے نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے جو رجحانات میں پوری طرح غلط ثابت ہو رہا ہے۔ ان کی موجودہ کارکردگی بہت خراب ہے اور ان کے پاس 0.38 ووٹ ہیں اور وہ کسی بھی سیٹ پر آگے نہیں ہیں۔

2002 کے انتخابات کو چھوڑ کر کانگریس کی جیتی ہوئی سیٹوں کی تعداد میں بھی 1990 سے 2017 تک مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ساتھ یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ تقریباً تین دہائیوں سے اقتدار سے باہر رہنے کے باوجود کانگریس ریاست کی دوسری سب سے بڑی پارٹی بنی ہوئی ہے۔ اس کا ووٹ شیئر کبھی بھی 30 فیصد سے کم نہیں رہا۔ 1998 کے بعد سے ہر الیکشن میں پارٹی کا ووٹ شیئر 35 فیصد سے زیادہ رہا ہے۔

-بھارت ایکسپریس

Also Read