Bharat Express

VP on Farmers Protest: آج کسان مظلوم،پریشان حال اور ناانصافی کے شکار ہیں،ان کو گلے لگانے کی ضرورت ہے، نائب صدر نے مودی حکومت کو دکھایا آئینہ

ہندوستان کے آئین کے تحت دوسرے عہدے پر فائز شخص کی آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم مجھے بتائیں، کیا کسان سے وعدہ کیا گیا تھا، اور کیا وعدہ کیا گیا تھا، وعدہ کیوں کیا گیا؟ اور وعدہ نبھانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پچھلے سال بھی  کسانوں کا آندولن تھا، اس سال بھی آندولن پر ہیں۔

نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکر نے ممبئی واقع آئی سی اے آر کے یوم یاسیس کی مناسبت سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کسانوں کے معاملے پر موجودہ حکومت کو آئینہ دکھایا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے اپنی کامیابیوں پر فخر کرنا بہت آسان ہے۔ تعریف حاصل کرنا بہت آسان ہے، لیکن یہ خود احتسابی کا موقع ہے۔یہ حکمت عملی کو نافذ کرنے کا موقع ہے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ آج آپ نے دیہی نظام کے بارے میں کتنی ہی بات کی ہے، آج کسان پریشان ہیں مظلوم  ہیں اور آندولن پر ہیں۔مرکزی وزیرزراعت شیوراج سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں امید کی کرن دیکھ سکتا ہوں۔ ایک تجربہ کار شخص آج ہندوستان کا وزیر زراعت ہے۔ شیوراج جی، آپ کے سامنے چیلنج کسانوں کی بہبود اور دیہی ترقی کا ہے۔جب آپ ترقی یافتہ ہندوستان کی بات کرتے ہیں تو ترقی یافتہ ہندوستان کا راستہ کسان کے دل سے ہوکر نکلتا ہے، ہمیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔اگر کسان آج احتجاج کر رہے ہیں تو اس تحریک کا محدود انداز میں اندازہ لگانا ایک بڑی غلط فہمی اور غلطی ہوگی۔ یہاں تک کہ جو کسان سڑک پر نہیں ہیں وہ بھی آج پریشان اور  مظلوم ہیں۔ ہندوستانی معیشت جو آج اپنے عروج پر ہے، پانچویں سپر پاور ہے، ہم دنیا کی تیسری سپر پاور بننے جا رہے ہیں، لیکن ایک بات یاد رکھیں، اگر ہندوستان کو ترقی یافتہ ملک کا درجہ حاصل کرنا ہے تو ہر شخص کی آمدنی میں آٹھ گنا اضافہ ہونی چاہیے۔اس آٹھ گنا اضافے میں سب سے بڑا تعاون دیہی معیشت اور کسانوں کی بہبود کا ہے۔انہوں نے کہا کہ کسان کے لیے جو بھی کیا جائے کم ہے۔ آپ کسانوں کے لیے جو بھی کریں گے، اس کا ملک پر مثبت اثر پڑے گا۔ اگر ہم خوداحتساب نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟ ہم اپنے کام کو روایت تک محدود نہیں رکھ سکتے۔ ہمیں اپنے اندر جھانکنے کی ضرورت ہے کہ ہم آج تک ایسا کیوں نہیں کر سکے۔ کیا دنیا میں زراعت ترقی نہیں کر رہی؟ کیا تکنیک دستیاب نہیں ہے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔

نائب صدر ہند نے کہا کہ میں نے 2 دن پہلے اپنی تشویش کا اظہار کیا تھا کہ کسان احتجاج کر رہے ہیں۔ میں نے کسان بھائیوں سے کہا تھا کہ ہمیں آبادکاری کی طرف بڑھنا چاہیے۔کسانوں کے مسائل کا حل  نکلنا چاہیے۔ ہم اپنے لوگوں سے نہیں لڑ سکتے، اپنے ہی لوگوں کو ایسی حالت میں نہیں ڈال سکتے کہ وہ کب تک لڑیں گے۔ ہمارے ہاں یہ نظریہ نہیں ہو سکتا کہ ان کا آندولن محدود ہو جائے گا اور وہ خود بخود تھک جائیں گے۔ ہندوستان کی روح کو پریشان مت کرو، اس کے دل کو تکلیف نہ دو۔

شیوراج سنگھ کو مخاطب کرتے ہوئے نائب صدر نے کہا کہ آپ کے لیے چیلنج یہ ہے کہ جب حکومت کوئی وعدہ کرتی ہے اور وہ وعدہ کسان سے متعلق ہوتا ہے تو ہمیں کبھی بھی کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہیے۔ کسان ہمارے لیے قابل احترام ہیں، وہ صبح  وشام یاد کیے جاتے ہیں۔ میں خود ایک کسان کا بیٹا ہوں، میں جانتا ہوں کہ کسان کو کیا کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔اس ملک میں 75 سال بعد ہم نے اتنے بڑے ادارے بنائے ہیں اور کسان آج بھی اپنی پیداوار کی قیمت کے لیے ترس رہے ہیں۔ زرعی مصنوعات کا کتنا بڑا کاروبار ہے۔ میں ایک چیلنجنگ سوال پوچھتا ہوں، آپ کے اداروں نے کسانوں کو اس میں شامل کرنے کے لیے کیا کیا؟ اگر کسان زراعت اور اس کی مارکیٹنگ سے منسلک ہوتے تو تبدیلی آتی یا نہیں آتی۔ سوچنے کا سوال ہے ۔ میں نے کئی بار کہا ہے اور اس بات پر توجہ مرکوز کی ہے کہ ہمارے کسانوں کو اپنی مصنوعات کی قیمت میں اضافہ کیوں نہیں کرنا چاہیے۔ وزیر زراعت، آپ اور آپ کی وزارتوں کو ایک ہی سطح پر مل کر کام کرنا چاہیے۔ کسانوں کو زرعی زمین پر مائیکرو اور میڈیم پیمانے کی صنعتیں لگانے کی ترغیب دی جائے تاکہ ان کی پیداوار کی قدر میں اضافہ ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ہم ماہرین اقتصادیات، تھنک ٹینکس سے مشورہ کیوں نہیں کر سکتے اور ایسا فارمولہ کیوں نہیں لے سکتے جس سے ہمارے کسانوں کو فائدہ ہو۔ حال تو یہ ہے کہ ہم منافع کے بجائے واجب الادا رقم ادا نہیں کر رہے ہیں ۔ جو وعدہ کیا ہے وہ دینے میں بھی ہم کنجوسی کررہے ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ کسانوں سے بات کیوں نہیں ہورہی؟وزیراعظم کا دنیا کو پیغام ہے کہ پیچیدہ مسائل بات چیت سے حل کیے جاسکتے ہیں۔اس لئے  کسان سے بلا تاخیر بات چیت ہونی چاہیے اور ہم سب کو معلوم ہونا چاہیے، کیا کسان سے کوئی وعدہ کیا گیا تھا؟ وزیر زراعت، کیا آپ سے پہلے وزیر زراعت نے کوئی تحریری وعدہ کیا تھا؟ وعدہ تھا تو کیا ہوا؟میں نے بہت سے ماہرین اقتصادیات سے بات کی ہے اور غور کیا ہے۔ ہمارا ذہن مثبت ہونا چاہیے، اس میں رکاوٹ پیدا نہیں کرنا چاہیے کہ اگر ہم کسان کو یہ قیمت ادا کریں گے تو اس کے برے نتائج ہوں گے۔ کسان کو جو بھی قیمت دی جائے گی، ملک کو اس کا پانچ گنا ملے گا، اس میں کوئی شک نہیں۔ہمیں ترجیح دینی ہوگی، ہمیں خیال رکھنا ہوگا

انہوں نے یہ بھی کہا کہ کیا ہم کسان اور حکومت کے درمیان کوئی حد بندی کر سکتے ہیں؟جو گلے ملنا چاہتے ہیں انہیں ڈانٹا نہیں جا سکتا۔ یہ سخت الفاظ ہیں لیکن بعض اوقات بیماری کے علاج کے لیے کڑوی دوا پینی پڑتی ہے۔میں ملک کے سبھی لوگوں سے اپیل کروں گا، میں کسان بھائیوں سے اپیل کروں گا، میری بات سنیں، میری بات کو سمجھیں، آپ معیشت کا محور ہیں، سیاست پر اثر انداز ہیں، آپ ہندوستان کی ترقی کے سفر کا اہم حصہ ہیں، آپ ایک مثال ہیں۔ آپ کو بھی بحث کے لیے آگے آنا چاہیے۔ لیکن مجھے وزیر زراعت سے تھوڑا سا دکھ ہوا ہے۔ یہ میری سوچ اور فکر کی بات ہے۔ یہ اقدام اب تک کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ آپ زراعت کی بہبود دیہی ترقی کے وزیر ہیں۔ مجھے سردار پٹیل یاد ہیں، ان کی ذمہ داری ملک میں اتحاد لانا تھی، وہ کیسے بخوبی نبھائی؟ ایسا چیلنج آج آپ کے سامنے ہے، اسے ہندوستان کے اتحاد سے کم نہ سمجھیں۔اوریہ اندازہ بہت محدود، تنگ ہے کہ کسانوں کی تحریک کا مطلب صرف وہ لوگ ہیں جو سڑکوں پر ہیں، صرف وہ نہیں ہیں۔ کسان کا بیٹا آج افسر ہے، کسان کا بیٹا سرکاری ملازم ہے۔میں نے پہلی بار ہندوستان کو بدلتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں پہلی بار محسوس کر رہا ہوں کہ ترقی یافتہ ہندوستان ہمارا خواب نہیں بلکہ ہمارا مقصد ہے۔ ہندوستان دنیا میں اس سے پہلے اس قدر اعلیٰ مقام پر کبھی نہیں تھا۔ دنیا میں ہماری ساکھ اتنی زیادہ پہلے کبھی نہیں تھی۔جب یہ ہو رہا ہے تو میرا کسان پریشان کیوں ہے؟ وہ کیوں تکلیف میں ہے؟ کسان مشکل میں کیوں ہیں؟یہ بہت گہرا مسئلہ ہے، اسے ہلکے میں لینے کا مطلب ہے کہ ہم  پریکٹیکل نہیں ہیں، ہماری پالیسی سازی کا عمل درست سمت میں نہیں ہے۔ وہ کون لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنے کسانوں کو اس کی پیداوار کی مناسب قیمت دیں تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کوئی پہاڑ گرے گا۔

نائب صدر نے کہا کہ کسان اکیلا ہے، بے بس ہے، اس پر کوئی اختیار نہیں کہ وہ کیا فیصلہ کر سکتا ہے۔ وزیر زراعت، آپ کے لیے ہر لمحہ بھاری ہے، میں آپ سے درخواست کرتا ہوں، اور ہندوستان کے آئین کے تحت دوسرے عہدے پر فائز شخص کی آپ سے گزارش ہے کہ براہ کرم مجھے بتائیں، کیا کسان سے وعدہ کیا گیا تھا، اور کیا وعدہ کیا گیا تھا، وعدہ کیوں کیا گیا؟ اور وعدہ نبھانے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ پچھلے سال بھی  کسانوں کا آندولن تھا، اس سال بھی آندولن پر ہیں ، وقت کا پہیہ گھوم  رہا ہے، ہم کچھ نہیں کر رہے ہیں۔نائب صدر نے کہا کہ میں نے جو کچھ بھی کہا ہے وہ میرے جذبات کا 5 فیصد ہے۔ میں اپنے آئینی عہدے کا پابند ہوں۔ میں اپنی بات کو پوری طرح سے ظاہر نہیں کر رہا ہوں، لیکن ملک کو کسانوں اور دیہی ہندوستان کے ساتھ مکمل انصاف کرنے کے لیے آگے آنا ہوگا۔ معاشی ماہرین کو بھی اس میں شامل کرنا ہو گا۔اور میرا درد یہ ہے کہ کسان اور ان کے خیر خواہ آج خاموش ہیں، بولنے سے کتراتے ہیں۔ ملک کی کوئی طاقت کسان کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ اگر کسی قوم نے کسان کے صبر کا امتحان لیا تو اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

بھارت ایکسپریس۔