وارانسی میں یکم جون کو ہونے والی ووٹنگ سے قبل مفتی بنارس اور گیانواپی مسجد کے چیف امام مولانا عبدالباطن نعمانی نے بڑا بیان دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی ایک فرقہ بابری، گیانواپی، متھرا اور کبھی آگرہ کی بنیاد پر الیکشن کی بات کر رہا ہے تو ظاہر ہے کہ ردعمل آئے گا۔مولانا عبدالباطن نعمانی نے کہا کہ ایک طرف مندر-مسجد کی بنیاد پر ووٹ دینے سے ظاہر ہے کہ دوسری طرف سے بھی کچھ ہو گا۔ ایک فرقہ کبھی بابری، گیانواپی، متھرا اور کبھی آگرہ کی بنیاد پر الیکشن کی بات کر رہا ہے۔ تو دوسرے فرقوں میں بھی ایسا ہی ہوگا۔ ایک طرف زیادہ نقصان دہ ہیں اور دوسری طرف کم نقصان دہ ہیں۔ اس لیے اس کا انتخاب کریں جو کم نقصان دہ ہو۔ امید رہتی ہے کہ ان سے کم تکلیف ملےگی۔
راہل گاندھی کی خاموشی پر سوال اٹھ رہے ہیں
عبدالباطن نعمانی نے راہل گاندھی کی خاموشی پر بھی سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ گیان واپی کے معاملے پر راہل نے آج تک کیا کہا ہے؟ بنارس کے بنکر ہجرت کر رہے ہیں، اس پر کیا کہا گیا؟ کیا راہل گاندھی نے کبھی اس پر آواز اٹھائی؟ انہوں نے کبھی گیانواپی پر بات نہیں کی، کبھی بنکر پر بات نہیں کی۔ کبھی کوئی نہیں بولا۔ ووٹ ضائع ہونے کے ڈر سے نہیں بولتے۔ گیانواپی کا جواب ووٹ دے کر دینا بھی ایک طریقہ ہے اور مسلمان بھی اس پہلو پر سوچ رہے ہیں۔
مسلمانوں کے ووٹ لینے والی پارٹیوں سے سوال
ان کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم جس خوف اور گھبراہٹ کا سامنا کر رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہیں تھا۔ سیکولرازم کے نام پر دوسری پارٹیوں نے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ان پارٹیوں نے کبھی گیانواپی، یو سی سی، سی اے اے جیسے مسائل پر مسلمانوں کے حق میں آواز نہیں اٹھائی۔ ووٹ حاصل کرنے کے لیے ہمدردی ظاہر کی لیکن جب موقع آیا تو منہ موڑ کر آگے بڑھ گئے۔ مسلم ریزرویشن پر موقف اختیار کرنا چاہیے تھا۔
بھارت ایکسپریس۔