لوک سبھا الیکشن کے ساتھ 26 اسمبلی سیٹوں پرضمنی الیکشن بھی ہو رہے ہیں۔ جس میں یوپی کی چارسیٹیں بھی شامل ہیں۔ آج ہم بلرام پور ضلع کی گینسڑی اسمبلی سیٹ کی بات کریں گے، جو سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر رہے ڈاکٹرشیوپرتاپ یادو کی موت کی وجہ سے خالی ہوئی ہے۔ 2022 اسمبلی الیکشن میں انہوں نے اس سیٹ پرکامیابی حاصل کی تھی، لیکن لمبی بیماری کے بعد علاج کے دوران 26 جنوری 2024 کو وہ دنیا سے رخصت ہوگئے اورگینسڑی اسمبلی سیٹ خالی ہوگئی۔
گینسڑی اسمبلی سیٹ پر ضمنی الیکشن کے درمیان سخت مقابلہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ سماجوادی پارٹی نے آنجہانی یعنی سورگیہ لیڈر ڈاکٹرایس پی یادو کے بیٹے راکیش یادو کو امیدوار بنایا ہے جبکہ بی جے پی کے سابق ایم ایل اے شیلیش کمار عرف شیلو سنگھ کو ایک بار پھرامیدوار بنایا گیا ہے۔ شیلو سنگھ 2017 کے اسمبلی الیکشن میں جیت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے، لیکن 2022 میں انہیں ڈاکٹر شیو پرتاپ یادو نے سخت مقابلے میں ہرا دیا تھا۔ اب ایک بار پھر شیلو سنگھ میدان میں ہیں، لیکن سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر ان کے سامنے ڈاکٹرایس پی یادو کے بیٹے راکیش یادو مورچہ سنبھال رہے ہیں۔ بی ایس پی کے ٹکٹ پر مرحوم فدا محمد خان کے بیٹے محمد حارث خان بھی الیکشن لڑ رہے ہیں اور وہ مقابلے کو دلچسپ بنا رہے ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں راکیش یادو کی۔ راکیش یادوانڈیا الائنس کے امیدوارہیں اوران کوڈاکٹرایس پی یادو کی موت کے بعد ان کے سیاسی وارث کے طور پرسماجوادی پارٹی نے ٹکٹ دیا ہے۔ ان کے ساتھ یادو طبقہ پوری مضبوطی کے ساتھ لگا ہوا ہے اور مسلم ووٹرس بھی بڑی تعداد میں ان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ انہیں سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ کا بڑا فائدہ مل رہا ہے اور ساتھ ہی انڈیا الائنس کی وجہ سے دیگرطبقے کا بھی ووٹ مل رہا ہے، اس لئے راکیش یادو اپنی جیت کو لے کر کافی مطمئن ہیں۔
شیلو سنگھ ایک بار پھرایم ایل اے بننے کے لئے پوری محنت کر رہے ہیں۔ وہ عوام کے ہرطبقے سے خود کو جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں، شیلو سنگھ علاقے میں رہتے ہیں اور ان سے ہرطبقہ جڑا بھی ہوا ہے، 2022 میں الیکشن ہارنے کے بعد وہ علاقے میں بنے رہے اور لوگوں کے وقت اورضرورت کے مطابق کام آتے رہے۔ لیکن ان پرایک الزام یہ لگ رہا ہے کہ وہ مسلم پردھانوں پر دباؤ ڈال کر ووٹ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ وہیں دوسری طرف ان کی ایک بڑی کامیابی یہ ہے کہ کئی مسلم لیڈران خود ان کے لئے انتخابی تشہیر یعنی چناوی پرچار خود بخود کرتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔
اب بات کرتے ہیں بی ایس پی امیدوار محمد حارث خان کی۔ حارث خان انتخابی میدان میں ہیں اور وہ مقابلے کو دلچسپ بنا رہے ہیں۔ محمد حارث خان اپنے والد مرحوم فدا محمد خان کے نام پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ دراصل، ان کے والد مرحوم فدا محمد خان کی شخصیت کافی صاف ستھری رہی ہے اور عوام میں کافی مقبول بھی رہے ہیں، وہ کئی بار انتخابی پچ پر اترے، لیکن وہ جیت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ ایک بار تو وہ بہت معمولی ووٹ سے بی جے پی امیدوار بندولال سے ہار گئے تھے۔ اس لئے اس بار حارث خان کی کوشش ہے کہ اپنی والد کے خوابوں کو پورا کریں۔ وہ خود کو اکیلا مضبوط مسلم امیدوار مانتے ہوئے دلت اور مسلم ووٹوں کے ساتھ جیت حاصل کرنے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حالانکہ پیس پارٹی سے گلزار احمد بھی الیکشن لڑ رہے ہیں، لیکن پیس پارٹی کا وجود اب تقریباً ختم ہوگیا ہے۔ ایسے میں مقابلہ سہ رخی یعنی ترکونیہ ہی ہونے کا امکان ہے۔
راکیش یادو، شیلو سنگھ اورمحمد حارث خان کے درمیان مقابلہ ترکونیہ ہے، اس لئے سب جم کر محنت کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر پارٹی کی بات کی جائے تو اہم مقابلہ سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کے درمیان ہے۔ کیونکہ بی ایس پی کی طرف لوگوں کا رجحان کافی کم ہے۔ لیکن محمد حارث کے ساتھ مسلم لیڈروں کا ایک بڑا گروہ لگا ہوا ہے اور مسلم اکثریتی سیٹ کی دلیل دیتے ہوئے عوام کو ایک خاص پیغام دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مسلم لیڈران دوحصوں میں بنٹے ہوئے ہیں اور اس لحاظ سے راکیش یادو اور محمد حارث خان دونوں ایک دوسرے سے کم نظر نہیں آرہے ہیں۔
سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق ریاستی وزیر وسیم احمد خان پارٹی کے کسی بھی اسٹیج پر نظر نہیں آئے ہیں جبکہ سینئر لیڈر نورالحسن اور پچپڑوا کے سابق بلاک پرمکھ شبو خان ، مشیرخان پپو اور شاہد خان جیسے لیڈران ان کے ساتھ کندھا سے کندھا ملاکر چل رہے ہیں تو محمد حارث خان کے ساتھ پچپڑوا سابق چیئرمین منظور عالم خان، ضلع پنچایت رکن ساجد خان، سینئر سماجی کارکن محمد ہارون خان، سابق گنا چیئرمین عقیل احمد خان، محمد یعقوب پردھان ، مولانا خلیل احمد کے علاوہ سابق ایم ایل اے علاؤالدین خان، ان کے بھائی فصیح الدین خان عرف لوہا سنگھ اور سابق ضلع پنچایت رکن نیاز احمد خان بھی انتخابی تشہیر چلا رہے ہیں۔ اس لئے دونوں لیڈران کے درمیان برابری کا مقابلہ ہے۔
دراصل، گینسڑی اسمبلی سیٹ پرتقریباً سوا لاکھ مسلم رائے دہندگان ہیں، اس لئے اسے مسلم اکثریتی سیٹ مانا جاتا ہے۔ 80 ہزار سے زائد مسلم ووٹ پول ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس لئے تینوں پارٹیوں کے امیدوار مسلم ووٹوں پر خاص توجہ مرکوز کر رہے ہیں۔ بی جے پی امیدوار کو بی جے پی کا ووٹ مل رہا ہے اوراس میں ہرطبقے کے لوگ شامل ہیں۔ لیکن پہلی بار یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ بڑی تعداد میں مسلم ووٹرس بھی بی جے پی کے ساتھ جا رہے ہیں۔ وہیں راکیش یادو مسلم ووٹوں کے سب سے بڑے دعویدار ہیں اورخود کو اس کا حقدار بھی مانتے ہیں۔ جبکہ حارث خان کو مسلم لیڈران اوردلت ووٹروں سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔
سب ملاکر یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مقابلہ کافی دلچسپ ہوسکتا ہے اور تینوں میں سے کسی بھی امیدوار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ شیلو سنگھ، راکیش یادو اور محمد حارث خان کی قسمت کا فیصلہ 25 مئی کو ای وی ایم میں بند ہوجائے گا اور 4 جون کو پتہ چلے گا کہ گینسڑی کے لوگوں نے اپنا نمائندہ کسے منتخب کیا ہے، لیکن اس موقع پر آپ سبھی سے اپیل ہے کہ بڑی تعداد میں نکلیں اور ووٹ ڈال کر اپنے جمہوری نظام یعنی ڈیموکریٹک سسٹم کو مضبوط کریں۔
بھارت ایکسپریس۔