سپریم کورٹ آف انڈیا۔ (فائل فوٹو)
کولکاتا میں ٹرینی ڈاکٹر کے ساتھ پہلے آبروریزی کی گئی اورپھراس کے بے رحمانہ قتل کردیا گیا ہے۔ اس معاملے پر ملک کی عدالت عظمیٰ یعنی سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا اورمنگل کو سماعت کی ہے۔ اس دوران عدالت نے مرکزی سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے اسٹیٹس رپورٹ طلب کی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سپریم کورٹ کی تین رکنی بینچ نے سوال اٹھایا کہ پولیس کیا کررہی تھی؟
معاملے میں سماعت کررہی عدالت عظمیٰ کی بینچ میں چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا شامل ہیں۔ عدالت میں سی بی آئی کی طرف سے سالسٹر جنرل تشارمہتا نے دلیلیں رکھیں، جبکہ مغربی بنگال حکومت کی طرف سے سینئر وکیل کپل سبل پیش ہوئے۔ ساتھ ہی ساتھ بنگال ڈاکٹرس ایسوسی ایشن سمیت دیگرعرضی گزاروں کے وکیل بھی پیش ہوئے۔ آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ چیف جسٹس نے سماعت کرتے ہوئے کیا کیا بڑی باتیں کہی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کولکاتہ عصمت دری اورقتل کا معاملہ ایک سنگین معاملہ ہے کیونکہ اس کا تعلق صحت کارکنان کی حفاظت سے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ خاتون ڈاکٹرکے خلاف کئے گئے جرم کا علم ہونے کے بعد میڈیکل کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹرسندیپ گھوش نے اسے خودکشی قراردیا۔ ایف آئی آربھی تاخیرسے درج کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ نے پوچھا کہ کیا ایف آئی آرمیں مقتولہ کے قتل کا ذکرہے؟ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب یہ واقعہ ہوا توپرنسپل کہاں تھے، کیا کررہے تھے۔ ایف آئی آرشام کودرج کی گئی اوراسے خودکشی قراردیا گیا۔ تاہم ریاستی حکومت کے وکیل کپل سبل نے اس کی تردید کی۔
میڈیکل کالج میں 14 اگست کوہونے والی توڑپھوڑکے بارے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ جب یہ واقعہ ہورہا تھا توپولیس کیا کررہی تھی؟ پولیس کا کام جائے وقوعہ کی حفاظت کرنا ہے۔ ڈاکٹرسندیپ گھوش کودوسری جگہ نوکری دینے کا معاملہ بھی اٹھایا گیا۔ عدالت نے کیس کی جانچ کررہی سی بی آئی سے اسٹیٹس رپورٹ بھی طلب کی ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران کہا کہ وہ ایک نیشنل ٹاسک فورس مقررکررہا ہے۔ اس کا کام پورے ملک کے اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی سیکورٹی پرمطالعہ کرکے مشورہ دینا ہے۔ عدالت نے اس بات کا بھی ذکرکیا کہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے آرام کرنے کے لئے جگہ نہیں ہوتی ہے۔
ملک کی عدالت عظمیٰ نے پورے ملک کے ڈاکٹروں سے اپیل کی کہ پورے ملک کوآپ کی سیکورٹی کی تشویش ہے۔ عدالت پربھروسہ کرتے ہوئے ڈاکٹرپھرسے کام پرلوٹ جائیں۔ مریضوں کو کافی زیادہ نقصان ہورہا ہے۔ انہیں لمبے انتظارکے بعد اپائٹمنٹ ملتی ہے، جواب منسوخ ہو جا رہی ہے۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑنے کہا کہ متاثرہ کی فیملی کواس کی لاش رات 8:30 بجے ملتی ہے، جبکہ ایف آئی آر 11:45 بجے ہوتی ہے۔ ایف آئی آرتو والد کی شکایت پرکی گئی ہے۔ اس دوران اسپتال کیا کررہا تھا۔ متاثرہ کی موت 9 اگست کی صبح تین بجے سے 5 بجے کے درمیان ہوئی تھی۔
بھارت ایکسپریس–