نئی دہلی: گزشتہ 18 سالوں سے جیل میں بند تین ملزمین کوکل یعنی 20 ستمبر کوالہ آباد ہائی کورٹ نے مشروط ضمانت پررہا کئے جانے کا حکم جاری کیا۔ سال 2018 میں الہ آباد کی خصوصی عدالت نے رام جنم بھومی (ایودھیا دہشت گردانہ حملہ) معاملے میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے 4 ملزمین کوعمرقید کی سزا دی تھی۔ عمر قید کی سزا ملنے بعد ملزمین نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے توسط سے نچلی عدالت کے فیصلے کوالہ آبادہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا نیزاپیلوں پر سماعت نہ ہونے کی صورت میں عدالت سے ضمانت پر رہا کئے جانے کی گزارش کی تھی۔ ملزمین ڈاکٹرمحمد عرفان، محمد اسلم، شکیل احمد اورنظیراحمد کی ضمانت عرضداشت پرجمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ عارف علی، ایڈوکیٹ سمیع الزماں اورایڈوکیٹ شہزاد عالم نے بحث کی جبکہ ملزم محمد نسیم فیروزالدین کی جانب سے ایڈوکیٹ ایم ایس خان نے بحث کی اسی طرح ملزم آصف اقبال کی جانب سے ایڈوکیٹ راجو لوچن شکلاء نے بحث کی۔
18 سالوں سے جیل میں بند ہیں ملزمین
ملزمین ڈاکٹرمحمد عرفان، محمد اسلم، شکیل احمد اورنظیراحمد کی جانب سے بحث کرتے ہوئے دو رکنی بینچ کے جسٹس اشونی کمارمشرا اور جسٹس آفتاب حسین رضوی کو ایڈوکیٹ عارف علی نے بتایا کہ ملزمین گذشتہ 18 سالوں سے جیل میں مقید ہیں اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے دی گئی عمرقید کی سزاؤں کے خلاف داخل اپیل پر سماعت التواء کا شکا رہے، لہذا ملزمین کو مشروط ضمانت پررہا کیا جائے۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو مزید بتایا کہ نچلی عدالت نے کمزور ثبوت شواہد کی بنیاد پر ملزمین کو مجرم قراردیا ہے جبکہ ثبوت وشواہد کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنے پر پتہ چلتا ہے کہ ملزمین کا اس واقعہ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا، محض شک کی بنیاد پرانہیں گرفتارکیا گیا تھا۔ ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو ڈاکٹرعرفان کے تعلق سے بتایا کہ استغاثہ نے ملزم کے خلاف گواہی دینے کے لئے عدالت میں 29 سرکاری گواہوں کو پیش کیا، جن میں سے صرف تین گواہوں نے مبینہ طور پرملزم کے قبضہ سے ضبط کئے جانے والے موبائل فون کے تعلق سے گواہی دی۔
جمعیۃ علماء کے وکلاء کا موقف
ایڈوکیٹ عارف علی نے عدالت کو بتایا کہ ملزمین کوامید ہے کہ اگران کی اپیل پرسماعت ہوئی تو وہ باعز ت بری ہوجائیں گے، لیکن پانچ سال کا وقفہ گزرجانے کے باوجود ملزمین کی اپیلوں پر سماعت نہیں ہوسکی ہے، لہذا ملزمین کو ضمانت پررہا کیا جائے۔ دفاعی وکلاء نے عدالت کو مزید بتایا کہ یوپی حکومت نے ملزمین کی سزاؤں میں تخفیف کی عرضداشت کو بھی خارج کردیا ہے، لہذا اپیلوں پر سماعت نہ ہونے کی صورت میں ملزمین کو ضمانت پررہا کیا جائے۔ دفاعی وکلاء کے دلائل کی سماعت کے بعد سرکاری وکیل کی ملزمین کو ضمانت پررہا کئے جانے کی عرضداشت کی شدید مخالفت کے باوجود دو رکنی بینچ نے ملزمین کو ضمانت پررہا کئے جانے کا حکم جاری کیا۔
بابری مسجد-رام جنم بھومی کامپلیکس پر 2005 میں ہوا تھا دہشت گردانہ حملہ
واضح رہے کہ سال 2005 میں بابری مسجد رام جنم بھومی کامپلیکس پر ہونے والے دہشت گردانہ حملہ میں متعدد لوگ ہلاک ہوئے تھے، جس میں مبینہ طور پرجیش محمد نامی ممنوعہ تنظیم کے اراکین کے شامل ہونے کی بات کہی گئی تھی۔ حملہ کے بعد تحقیقاتی دستوں نے متذکرہ پانچ ملزمین کو گرفتارکیا تھا اوران کے خلاف تعزایت ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ قائم کیا تھا۔ اس معاملے میں کل 65 سرکاری گواہوں نے اپنے بیانات قلمبند کرائے جبکہ پانچ گواہ وہ بھی تھے، جنہیں عدالت نے طلب کیا تھا۔
مولانا ارشد مدنی نے ضمانت پررہائی کا کیا خیرمقدم
جمعیۃعلماء ہند کے صدرمولانا ارشد مدنی نے 18 سال کے بعد ضمانت پرملزمین کی رہائی کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملزمین کے اہل خانہ کے لئے بلاشبہ یہ انتہائی خوشی کی بات ہوگی کیونکہ ان کے لئے یہ ساعت ایک طویل انتظارکے بعد آئی ہے، اس کے ساتھ ہی انہوں نے اس امرپرسخت مایوسی کا اظہارکیا کہ 18 برس کی طویل مدت گزرجانے کے بعد بھی اس مقدمہ میں اب تک حتمی فیصلہ نہیں آسکا۔ ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو الہ آبادہائی کورٹ میں چیلنچ کئے ہوئے بھی 5سال گزرچکے ہیں مگراپیلوں پر اب تک سماعت نہیں ہوسکی، اس سلسلہ میں جن پانچ لوگوں کو گرفتارکیا گیا تھا ان میں سے چارکو الہ آباد کی خصوصی عدالت نے 2018 میں عمرقید کی سزادی تھی، چنانچہ یہ کہا جاسکتاہے کہ جب تک اس پر حتمی فیصلہ کی نوبت آئے گی ملزمین اپنی پوری زندگی جیل کی سلاخوں کے پیچھے فیصلہ کے انتظارمیں گزارچکے ہوں گے یوں بھی دیکھاجائے تو 18برس جیل میں گزارکر یہ لوگ ایک طرح سے عمرقید کی سزامکمل کرچکے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ یہ کوئی پہلی مثال نہیں ہے اس طرح کے بیشترمقدمات میں پولس اورتفتیشی ایجنسیوں کے ذریعہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو تباہ کرنے کے لئے طرح طرح کے حیلوں اوربہانوں سے تاخیر کروائی جاتی ہے مگر افسوس کی بات تویہ ہے کہ انسانی حقوق کی اس سنگین خلاف ورزی کے خلاف کہیں سے کوئی آوازنہیں اٹھتی حالانکہ یہ ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔
بھارت ایکسپریس۔