Bharat Express

بنگلہ دیش میں ہندووں کا وجود خطرے سے دوچار،آبادی گھٹ کر8.5فیصد ہوگئی،ڈاکٹر راجیشور سنگھ کا اظہار تشویش

جہاں 1947 میں ہندو آبادی 30 فیصد تھی وہ اب گھٹ کر صرف 8.5 فیصد رہ گئی ہے۔ 1971 کی نسل کشی میں 30 لاکھ ہندو مارے گئے یا بے گھر ہو گئے۔ یہ آبادیاتی عدم توازن کے سنگین اثرات کا واضح ثبوت ہے!

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اقلیتوں بالخصوص ہندوؤں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کے مکانات، ادارے اور مندر گرائے جا رہے ہیں، خواتین پر تشدد کیا جا رہا ہے، جس پر بھارت مسلسل اپنا احتجاج کر رہا ہے، اسی سلسلے میں لکھنؤ کے سروجنی نگر اسمبلی میں ہندو تنظیموں کی جانب سے نکالی گئی عوامی جن آکروش ریلی میں بی جے پی کے ایم ایل اے راجیشور سنگھ بھی شامل ہوئےاوراپنےغصے کا اظہار کیا۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ شیئر کرتے ہوئے ہندوؤں کی صورتحال کو اجاگر کیا ہے۔

ہندو آبادی کم ہو کر 8.5 فیصد رہ گئی

انہوں نے ٹویٹر پر لکھاکہ جہاں 1947 میں ہندو آبادی 30 فیصد تھی وہ اب گھٹ کر صرف 8.5 فیصد رہ گئی ہے۔ 1971 کی نسل کشی میں 30 لاکھ ہندو مارے گئے یا بے گھر ہو گئے۔ یہ آبادیاتی عدم توازن کے سنگین اثرات کا واضح ثبوت ہے! وہاں کی حکومت نے لفظ سیکولرازم ختم کر کے بنگلہ دیش کو اسلامی ملک میں تبدیل کر دیا ہے جو کہ قابل مذمت ہے۔امتیازی ‘ویسٹڈ پراپرٹی ایکٹ’ کی وجہ سے 60 فیصد ہندو بے زمین ہو چکے ہیں۔ ہر سال 2 لاکھ سے زائد ہندو بنگلہ دیش چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ 1964 اور 2013 کے درمیان مذہبی ظلم و ستم کی وجہ سے ایک کروڑ سے زیادہ ہندو بنگلہ دیش سے فرار ہو چکے ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق 2000-2010 کے درمیان 10 لاکھ ہندو لاپتہ ہوئے ہیں۔

500 سے زائد مندروں کو تباہ کیا گیا۔

2013 سے اب تک ہندوؤں پر 4000 سے زیادہ حملے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ 22 سالوں میں 500 سے زائد مندروں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ ہندو لڑکیوں کی عصمت دری اور اغوا کے ان گنت واقعات اس ظلم کی وحشت کو ظاہر کرتے ہیں۔دنیا بھر کے 550 شہروں میں 1000 سے زائد مندروں اور مراکز کے ساتھ 150 ممالک میں لاکھوں عقیدت مندوں سے منسلک، انسانیت کی خدمت، ثقافتی تحفظ اور امن کے لیے وقف تنظیم ISKCON کے سرشار اراکین کو نشانہ بنانا انتہائی قابل مذمت ہے۔ چنموئے داس پربھو جی سمیت 4 برہمیوں کو بغیر کسی وجہ کے گرفتار کرنا اور 16 ممبران کے بینک اکاؤنٹس کو ضبط کرنا نہ صرف ان کے آئینی حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ مذہبی آزادی پر بھی براہ راست حملہ ہے۔

راجیشور سنگھ جن آکروش یاترا میں شامل ہوئے۔

اسی سلسلے میں آج سروجنی نگر میں ہندو رکشا سمیتی اور وشو ہندو پریشد کے زیراہتمام منعقدہ جن آکروش پدیاترا میں  میں نے شرکت کی۔ ہندو تنظیموں، بھکشوؤں، گروکل کے طلباء اور ہندو سماج کے لوگوں نے واضح پیغام دیا کہ ہندو سماج مزید ناانصافی کو برداشت نہیں کرے گا۔ہمیں بین الاقوامی فورمز پر ہندوؤں کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانی ہوگی۔ بنگلہ دیش میں ہونے والے ان مظالم کو روکنے اور امتیازی قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔اسی دوران انہوں نے  بہت سے ممالک میں ہندوؤں کی گھٹتی ہوئی آبادی پر تشویش کا اظہا کیا ہے، پاکستان میں 10فیصد سے 2فیصد ہندو رہ گئے ہیں اور افغانستان میں 1 فیصدی سے بھی کم ہندورہ گئے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ  اتر پردیش ہو، کیرالہ ہو، جموں و کشمیر ہو، ہندوؤں کی آبادی ہر جگہ کم ہوئی ہے، اتر پردیش میں 1951 سے 2011 تک 5 فیصد کم ہوئی ہے، کیرالہ میں 1951 سے 2011 تک 14 فیصد کم ہوئی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔ اس کی فکر کرنی چاہیے۔ ہندوؤں کی سلامتی صرف کمیونٹی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ انسانیت کے وجود کا سوال ہے۔

بھارت ایکسپریس۔