آج کل دنیا میں تقریباً ہر کسی کے پاس اسمارٹ فون ہے۔ اور ان تمام اسمارٹ فونز میں انٹرنیٹ بھی موجود ہے۔ اسمارٹ فونز کے ذریعے، کسی کو سوشل میڈیا پر جو چاہے کرنے کی آزادی ملتی ہے۔ لوگوں پر کسی قسم کا کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ایسے حالات میں لوگ بہت سی قابل اعتراض چیزیں بھی استعمال کرتے ہیں۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ لہذا، آپ کو اپنے فون میں مخصوص قسم کی ویڈیوز نہیں رکھنی چاہئیں۔ ورنہ آپ جیل بھی جا سکتے ہیں۔
خواتین کے خلاف جرائم کو فروغ دینے والی قابل اعتراض ویڈیو
آج کل سوشل میڈیا پر لوگوں کو کسی بھی چیز کی ویڈیوز ملتی ہیں۔ اس لیے وہ اسے اپنے گروپ میں اور اپنے فرینڈ سرکل میں بغیر کچھ سوچے شیئر کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اس ویڈیو کو شیئر کیا جائے یا نہیں۔ جن لوگوں کو ایسی ویڈیوز موصول ہوتی ہیں وہ انہیں دیکھنے کے بعد اپنے فون میں بھی رکھتے ہیں۔ ہم ان ویڈیوز کی بات کر رہے ہیں جن میں خواتین پر مظالم ہوتے ہیں۔ ان کا استحصال کیا جاتا ہے۔ان کی ویڈیو قابل اعتراض حالت میں بنائی جاتی ہے۔ ایسے میں نہ صرف اس قسم کی ویڈیو بنانا جرم ہے۔ درحقیقت اسے شیئر کرنا بھی جرم ہے اور اسے اپنے فون پر رکھنا بھی جرم ہے۔ اس لیے اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسی ویڈیو شیئر کرتا ہے تو اسے فوراً ڈیلیٹ کر دیں۔ بصورت دیگر، آپ کو آئی پی سی سیکشن 292 کے تحت سزا دی جا سکتی ہے۔
سال 2020 میں دہلی میں فسادات ہوئے تھے۔ ہندوستان میں فسادات کی ایک تاریخ ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں گھر بیٹھے لوگ بھی فساد پھیلانے میں مدد کرتے ہیں۔ اگر آپ کے فون پر ایسی کوئی چیز آتی ہے۔ جو فرقہ وارانہ منافرت کو فروغ دیتی ہے۔ آپ اسے آگے شئیر کرتے ہیں اور وہ بات آہستہ آہستہ بہت سے لوگوں تک پھیل جاتی ہے۔تو ایسا کرنا جرم ہے۔ اگر آپ ایسا کرتے ہوئے پائے گئے تو آپ کو جیل جانا پڑ سکتا ہے۔ اس لیے اگر آپ کہیں بھی اس قسم کی کوئی ویڈیو دیکھیں تو اس سے گریز کریں۔ اگر کوئی آپ کے ساتھ ایسی ویڈیو شیئر کرے تو فوراً اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کر دیں۔ دوسری صورت میں، آپ کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 153 کے تحت کارروائی کی جا سکتی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔