Bharat Express

Modi Surname Case: راہل گاندھی کی رکنیت کی بحالی کے خلاف دائر عرضی مسترد، عرضی گزار پر سپریم کورٹ نے عائد کیا ایک لاکھ روپے کا جرمانہ

جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس سنجیو کمار کی بنچ نے کہا تھا، ‘ٹرائل جج کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سزا دینے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، حتمی فیصلہ آنے تک سزا کے حکم پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔’

راہل گاندھی کی رکنیت کی بحالی کے خلاف دائر عرضی مسترد

دہلی: کانگریس لیڈر راہل گاندھی کی لوک سبھا رکنیت کی بحالی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی دائر کی گئی تھی، جسے مسترد کر دیا گیا ہے۔ راہل کو سورت کی ایک عدالت نے ‘مودی سرنیم’ کے بارے میں کیے گئے متنازعہ تبصرہ میں قصوروار ٹھہرایا تھا، جس کی وجہ سے وہ اپنی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ حالانکہ، سپریم کورٹ نے گزشتہ سال اگست میں نچلی عدالت کے فیصلے پر روک لگا دی تھی جس کے بعد راہل کی رکنیت بحال کردی گئی تھی۔

سپریم کورٹ نے نہ صرف رکنیت کی بحالی کے خلاف عرضی مسترد کر دی بلکہ عرضی گزار پر ہرجانہ بھی عائد کر دیا۔ عرضی کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے عدالت نے عرضی گزار اشوک پانڈے پر ایک لاکھ روپے کا ہرجانہ عائد کیا ہے۔ اس سے قبل لکشدیپ کے رکن اسمبلی محمد فیضل کی رکنیت کی بحالی کو چیلنج کرنے پر پانڈے پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ پانڈے کا کہنا ہے کہ جب تک کوئی اعلیٰ عدالت میں بے قصور ثابت نہیں ہو جاتا، اسے ایوان میں واپس نہیں لے جانا چاہیے۔

پچھلے سال سپریم کورٹ سے ملی تھی راحت

دراصل، 4 اگست کو سپریم کورٹ نے سورت کی عدالت کے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی، جس میں نچلی عدالت نے راہل کو ہتک عزت کے معاملے میں قصوروار پایا تھا۔ سورت کی عدالت نے انہیں دو سال قید کی سزا سنائی تھی جس کی وجہ سے راہل لوک سبھا کی رکنیت سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے بعد راہل گجرات ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ گئے۔ راہل کو گجرات ہائی کورٹ سے راحت نہیں ملی، لیکن سپریم کورٹ نے اگست میں نچلی عدالت کے فیصلے پر روک لگا دی۔

سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ راہل گاندھی کو ہتک عزت کے لیے زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جسٹس بی آر گاوائی، جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس سنجیو کمار کی بنچ نے کہا تھا، ‘ٹرائل جج کی جانب سے زیادہ سے زیادہ سزا دینے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی، حتمی فیصلہ آنے تک سزا کے حکم پر روک لگانے کی ضرورت ہے۔’ بنچ نے کہا کہ ٹرائل کورٹ کے حکم کے اثرات کافی وسیع ہیں۔

بھارت ایکسپریس۔