Bharat Express

قومی

چار ریاستوں کی ووٹنگ کے ابتدائی رجحانوں میں بی جے پی مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں کافی آگے چل رہی ہے جبکہ کانگریس تلنگانہ میں واضح اکثریت حاصل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

 تلنگانہ میں 2018 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں اسدالدین اویسی کی اے آئی ایم آئی ایم کو 7 سیٹوں پر جیت ملی تھی۔ وہیں بی جے پی کو تب محض ایک سیٹ سے کامیابی ملی تھی۔ 2013 میں بی جے پی کو 5 سیٹیں ملی تھیں۔

تمام سیاسی جماعتوں نے تمام ریاستوں میں مضبوطی سے الیکشن لڑا ہے۔ اس کی جھلک انتخابی مہم میں دیکھنے کو ملی۔ مدھیہ پردیش میں 230 اسمبلی سیٹیں ہیں اور تمام سیٹوں پر الیکشن لڑا گیا ہے۔ یہاں بی جے پی اور کانگریس کے درمیان آمنے سامنے مقابلہ ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ٹویٹ کر جانکاری دیتے ہوئے بی جے پی کے رکن اسمبلی نے لکھا کے قومی دارلحکومت دہلی جاتے وقت ریاست کے حزب اختلاف کے رہنما اور سابق وزیر اعلی اکھلیش یادو سے ملاقات کی

مسلم ماحول کا حوالہ دیتے ہوئے بی جے پی ایم پی نے کہا کہ یہاں پائلٹ کی جیت یقینی ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے ووٹ مفت میں حاصل کئے۔ اس لیے ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

انتخابی ریاست مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کے انتخابی نتائج کے اعلان سے پہلے ہی کانگریس نے منصوبہ بندی کرلی ہے۔ اس کے لئے اس نے اپنے لیڈران کو آبزرور نامزد کردیا ہے۔

مہاراشٹرمیں چچا-بھتیجا کے درمیان چل رہی سیاست ایک بار پھر گرما گئی ہے۔ اجیت پوار کے بیان کے بعد شرد پوار نے پلٹ وار کیا اور بی جے پی کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانے کی بات کہی ہے۔

بی آرایس اور کانگریس اور دونوں اکثریت کے اعدادوشمار تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو اے آئی ایم آئی ایم کنگ میکر کے طور پر ابھرے گی۔ حالانکہ ایگزٹ پول صرف علامتی ہوتے ہیں اور ان پر مکمل اعتماد کرنا درست نہیں ہے۔

سی ایم کے بارے میں نروتم مشرا نے کہا ہو گا کہ وہ سی ایم کی اس دوڑ میں شامل نہیں ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ 230 ایم ایل اے میں سے کوئی بھی وزیر اعلیٰ بن سکتا ہے۔

ایس سومناتھ کو نوجوانوں کے لیے ایک تحریک بتاتے ہوئے مکیش امبانی نے اپنے پرانے تجربات بھی طلبا کے ساتھ شیئر کیے۔