راجستھان میں اردو پڑھنے کا شوق
راجستھان کے ضلع ٹونک میں ایک گاؤں ہے جہاں کی 100% آبادی ہندو ہے اور یہاں ہر کوئی اردو پڑھنا چاہتا ہے۔ اس گاؤں کے مکینوں کا دعویٰ ہے کہ کم از کم ایک ہزار نوجوانوں نے اردو پڑھی ہے۔
چھوٹی کاشی کے نام سے مشہور یہ گاؤں جے پور سے تقریباً 85 کلومیٹر دور ہے۔
یہاں 1800 ہندو خاندان رہتے ہیں۔ گاؤں میں ایک بھی مسلم خاندان نہیں ہے۔ لیکن اس گاؤں میں سنسکرت سے زیادہ بچوں کو اردو پڑھانے پر توجہ دی جاتی ہے۔
گاؤں میں 100 سے زیادہ اردو اساتذہ
سیدڑا گاؤں میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ پورے ٹونک ضلع سے اردو زبان کے سرکاری اساتذہ کی تعداد صرف سیدڑا گاؤں میں زیادہ ہیں ۔ سیدڑا کے رہائشی اور پنچایت سمیتی کے رکن رام کشور کہتے ہیں، “اردو نے گاؤں کے نوجوانوں کا سرکاری نوکریوں کا خواب پورا کر دیا ہے۔”
انہوں نے بتایا، “آج گاؤں میں ہر سطح پر اردو کے اساتذہ موجود ہیں۔ تیسرے درجے، دوسرے درجے، اول درجے، کالج کے لیکچرر، اسکول کے پرنسپل اور یونیورسٹی میں اردو زبان کے پروفیسر گاؤں سے ہیں۔”
سیارام مینا سیدڑاا گاؤں کے اسکول میں آٹھویں جماعت تک ٹیچر ہیں۔ وہ خود اردو زبان کے سرکاری استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “پہلے بچوں کو اردو بھی نہیں آتی تھی۔ لیکن، آج گاؤں کے بہت سے اردو ٹیچر ہیں۔” وہ ہمیں کئی نام بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بھائی بھی اردو کے استاد ہیں۔
وہ کہتے ہیں، “گاؤں میں کم از کم ایک ہزار بچوں نے اردو پڑھی ہے۔ گاؤں سے بنائے گئے سرکاری اساتذہ نہ صرف ٹونک بلکہ دوسرے اضلاع اور ریاستوں میں بھی تعینات ہیں۔”
سیدڑا اسکول کے پرنسپل بیربل مینا بتاتے ہیں، “سیدڑا میں بہت سے ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے اردو پڑھ کر بی ایس ٹی سی اور بی ایڈ مکمل کیا ہے، جو اساتذہ کی بھرتی کا انتظار کر رہے ہیں۔ اس بھرتی کے وقت کم از کم تیس نوجوان ضرور ٹیچر بننے والے ہیں۔
ایک مثال دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ’’سال 2013 میں اردو کے اساتذہ کی بھرتی ہوئی تھی، جس میں درج فہرست قبائل کی 26 آسامیوں میں سے 11 سدرہ نوجوانوں کو منتخب کیا گیا تھا۔
اردو کیوں پڑھنا چاہتے ہیں؟
سیدڑا گاؤں کی تقریباً 95 فیصد آبادی شیڈولڈ ٹرائب (ST) زمرے سے تعلق رکھتی ہے۔ درج فہرست قبائل کی بھرتی میں ریزرویشن کے مطابق بھرتی کی تعداد محفوظ ہے۔
ابتدا میں جب گاؤں کے بچوں نے 1997-98 میں اردو پڑھنی شروع کی۔ اور چند سالوں کے بعد اردو کی بھرتی پر وہ سرکاری استاد بن گئے، تب سے گاؤں والوں میں اردو کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔ اساتذہ کی بھرتی میں اردو زبان کی پوسٹیں درج فہرست قبائل کے لیے مخصوص ہیں۔ ایسے میں اس زمرے سے اردو نشستوں پر امیدواروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے یہ نشستیں خالی رہتی تھیں۔
لیکن، اب جو نوجوان اردو کے ذریعے باآسانی سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کے بارے میں آگاہ ہوچکے ہیں، وہ اردو میں اپنا اور اپنے عزیز و اقارب کا مستقبل تلاش کرنے لگے ہیں۔ اردو کے استاد گنگادھر مینا کہتے ہیں، “اردو پڑھنے کے بعد ایم ڈی ایس یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں، کئی اسکول ٹیچر ہیں۔ ان سے متاثر ہو کر نوجوانوں اور بچوں نے اردو پڑھنا شروع کر دی ہے۔”
جب ہم نے اردو پڑھنے والے بچوں سے بات کی تو زیادہ تر خاندانوں میں ایسے بزرگ ہیں جنہوں نے اردو پڑھی ہے۔ کچھ اساتذہ ہیں یا اساتذہ کی پوسٹ پر بھرتی کے منتظر ہیں۔