Bharat Express

Madras HC on UGC regulations and minority institutions: یو جی سی کے تمام ضوابط اقلیتی اداروں پر نافذ نہیں ہوتے، مدراس ہائی کورٹ نے سنایا اہم فیصلہ

جسٹس این آنند وینکٹیش نے یہ فیصلہ چار اقلیتی خود مختار کالجوں، جن میں چنئی کے ہی ویمنز کرسچن کالج، مدراس کرسچن کالج، لویولا کالج اور اسٹیلا مارس کالج شامل ہیں، اور سیکرڈ ہارٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج کی طرف سے دائر درخواستوں پر سنایا۔

اقلیتی اداروں میں تدریسی عملے کی تقرر کے حوالے سے یو جی سی کے ضوابط پر مدراس ہائی کورٹ نے ایک اہم فیصلے سنایا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ تدرسی عملے کی تقرری کے لیے ایک خاص انداز میں سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کے لیے 2018 کے یو جی سی کے ضابطے اقلیتوں کے لیے مختص تعلیمی اداروں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اسی بنیاد پر مدراس ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ اس طرح کے ضوابط اقلیتی اداروں پر نافذ نہیں ہوتے ہیں۔

جسٹس این آنند وینکٹیش نے یہ فیصلہ چار اقلیتی خود مختار کالجوں، جن میں چنئی کے ہی ویمنز کرسچن کالج، مدراس کرسچن کالج، لویولا کالج اور اسٹیلا مارس کالج شامل ہیں، اور سیکرڈ ہارٹ آرٹس اینڈ سائنس کالج کی طرف سے دائر درخواستوں پر سنایا۔ ان اداروں کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں میں مدراس یونیورسٹی اور اناملائی یونیورسٹی کے ذریعے اول الذکر چار کالجوں میں 66 اسسٹنٹ پروفیسروں اور موخرالذکر کلاج میں پرنسپل کی تقرری کو رد کرنے کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔

کیوں نہیں دی گئی منظوری؟

دونوں یونیورسٹیوں نے ان تقرریوں کو اس بنیاد پر مسترد کیا تھا کہ تدریسی عملے کا انتخاب مناسب طریقے سے تشکیل شدہ سلیکشن کمیٹی کے مسترد اس بنیاد پر کیا گیا تھا کہ انتخاب یو جی سی ضوابط 2018 اور ریاستی حکومت کے جی او 2021 ضوابط کے مطابق تشکیل شدہ سلیکشن کمیٹی کے ذریعے نہیں کیا گیا تھا۔ اقلیتی تعلیمی اداروں کے اختیارات پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ڈویژن بنچ کے احکامات کا حوالہ دیتے ہوئے جج نے کہا ’’متعلقہ UGC ضابطے انتظامیہ کے مجموعی انتظامی کنٹرول میں براہ راست مداخلت کرتے ہیں جو اقلیتی اداروں کو ضمانت دیے گئے تعلیمی اداروں کے قیام اور نظم و نسق کے حق کو کم کر دیتے ہیں۔‘‘

عدالت نے ہدایت کی کہ چار ہفتوں کے اندر کالجوں کے انتخاب کو دی جائے منظوری

“جسٹس این آنند وینکٹیش نے جمعرات کو سنئے گئے اپنے فیصلے میں کہا ’’لہٰذا یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کی تقرری کے لیے کم از کم اہلیت کے بارے میں یو جی سی کے 2018 کے ضابطے اور ریاستی حکومت کے مطلع کردہ ضابطے، دونوں ہی کے مطابق سلیکشن کمیٹی کی تشکیل ان بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے جن کی ضمانت آئین کی دفعہ 30(1) کے تحت دی گئی ہے۔ لہٰذا اس عدالت کا ماننا ہے کہ یو جی سی ضواط 2018 اقلیتی اداروں پر نافذ نہیں ہوں گے۔‘‘

عدالت نے دونوں یونیورسٹیوں کو ہدایت کی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر ان کالجوں کی طرف سے کی جانے والی سلیکشن کو منظوری دیں۔ درخواست گزار کالجوں کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل اسحاق موہن لال نے کہا کہ تدریسی عملے کی تقرری کے لیے سلیکشن کمیٹی کی تشکیل پر اصرار اقلیتوں کے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کو چلانے کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ وہیں یو جی سی کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل اے آر ایل سندریسن نے استدلال کیا کہ سلیکشن کمیٹی تمام اداروں بشومل اقلیتوں کے زیرِانتظام اداروں کے ذریعے تشکیل دی جانی چاہیے۔ یو جی سی اور ریاستی حکومت دونوں نے کہا ہے کہ ان کالجوں کے ذریعے منتخب امیدواروں کو اس وقت منظوری نہیں دی جا سکتی جب کہ یو جی سی کے 2018 کے ضابطوں کے مطابق انتخاب نہ کیا جائے۔

عدالتیں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کریں گی

فیصلہ سناتے ہوئے جج نے مشاہدہ کیا کہ اقلیتوں کے حقوق نے آزادی کے بعد ایک نئے خودمختار ملک میں ان کے مستقبل کے متعلق خدشات کے درمیان تحفظ کا احساس پیدا کیا تھا۔آئین میں خاص طور پر دفعہ 30 (1) کے ذریعے ان حقوق کو بیان کیا گیا ہے جو اقلیتوں کو اپنی پسند کے تعلیمی ادارے قائم کرنے اور ان کا انتظام کرنے کا حق دیتے ہیں۔ جسٹس وینکٹیش نے حکم نامے میں کہا ’’یہ فراہمی محض ایک قانونی خانہ پری نہیں تھی۔ یہ اقلیتی برادریوں کی ثقافتی اور تعلیمی شناخت کے تحفظ کے لیے (آئین کے) بنانے والوں کی طرف سے کیا گیا وعدہ تھا۔‘‘ انھوں نے وضاحت کی کہ ایسی صورتوں میں جہاں ان حقوق کو خطرہ لاحق ہو، وہاں آئینی عدالتوں کو ان کی تصدیق اور تحفظ کے لیے فیصلہ کن مداخلت کرنی چاہیے تاکہ انصاف اور مساوات کے بنیادی نظریات برقرار رہیں۔ عدلیہ کو اقلیتوں میں اعتماد بحال کرنے میں اپنے اہم کردار کو تسلیم کرنا چاہیے۔‘‘



بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔

Also Read