وقف پر مسلم راشٹریہ منچ کی کتاب
نئی دہلی: مسلم راشٹریہ منچ کی شائع کردہ کتاب ’’وقف بل 2024: رسپکٹ فور اسلام اینڈ گفٹ فور مسلم‘‘ نے نہ صرف دہلی بلکہ پورے ملک میں بحث و مباحثے کا ایک نیا دور شروع کر دیا ہے۔ منگل کے روز پارلیمنٹ کی مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے چیئرمین اور سینئر رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کی رہائش گاہ پر اس کتاب کی خصوصی رونمائی ہوئی، جس میں کئی اہم شخصیات موجود تھیں۔ اس موقع پر جگدمبیکا پال نے اسے ’’آنکھ کھولنے والی دستاویز‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ کتاب نہ صرف مسلم سماج بلکہ ملک کے ہر طبقے کے لیے ایک اہم پیغام پیش کرتی ہے۔
پال نے مزید کہا کہ ’’یہ کتاب وقف املاک کے انتظام میں شفافیت کو یقینی بنانے اور سماج کی وسیع تر فلاح و بہبود کے لیے ان کے استعمال کو یقینی بنانے کے لیے ایک ٹھوس اور عملی روڈ میپ فراہم کرتی ہے۔‘‘ ان کے مطابق یہ کتاب وقف املاک کے صحیح استعمال کے معاملے پر نہ صرف حکومت بلکہ عام لوگوں کو بھی آگاہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’یہ اقدام وقت کی ضرورت ہے، تاکہ وقف املاک کے ذریعہ تعلیم، صحت اور روزگار کے مواقع کو فروغ دیا جاسکے اور یہ جائیدادیں مسلم کمیونٹی کی ترقی میں اہم رول ادا کرسکیں‘‘۔ پال نے یہ بھی واضح کیا کہ جے پی سی کی رپورٹ میں اس کتاب کی تجاویز اور حقائق کو شامل کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے، تاکہ رپورٹ تمام فریقوں کا متوازن نظریہ پیش کرے۔ انہوں نے کتاب کے مصنفین- ڈاکٹر شاہد اختر، ڈاکٹر شالینی علی، ایڈوکیٹ شیراز قریشی اور سینئر صحافی شاہد سعید- کے تعاون کی تعریف کی اور کہا کہ ان کی کوششوں نے وقف املاک کے انتظام کو بہتر بنانے کی طرف ایک مضبوط بنیاد رکھی ہے۔
پال کے مطابق، ’’یہ کتاب ایک تاریخی دستاویز کے طور پر ابھر رہی ہے، جو نہ صرف مسلم سماج کے لیے بلکہ پورے ہندوستانی سماج کے لیے رہنما بن جائے گی۔‘‘ لانچ کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ کس طرح یہ کتاب وقف املاک کے انتظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بیداری اور مساوات کو بڑھاوا دے گی۔
قومی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین اقبال سنگھ لال پورہ نے کتاب ’’وقف بل 2024: رسپکٹ فور اسلام اینڈ گفٹ فور مسلم‘‘ کی تعریف کی اور اسے مسلم کمیونٹی اور پورے ملک کے لیے ’’ایک تاریخی قدم‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب وقف املاک کی حقیقی حیثیت اور انتظام میں شفافیت کی ضرورت کو اجاگر کرتی ہے جو کہ اب تک عوام سے پوشیدہ تھی۔ لال پورہ نے مزید کہا، ’’یہ کتاب ان تمام ہندوستانی شہریوں کے لیے اہم ہے جو جاننا چاہتے ہیں کہ وقف املاک کو حقیقت میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس کتاب کے ذریعے یہ واضح ہو رہا ہے کہ وقف املاک ایک بہت بڑا وسیلہ بن کر ابھر سکتی ہیں، اگر ان کا صحیح طریقے سے انتظام کیا جائے اور تعلیم، صحت اور سماجی بہبود کے کاموں کے لیے وقف کیا جائے۔ لال پورہ نے اسے ایک بیداری مہم کے طور پر دیکھا جو نہ صرف مسلم کمیونٹی بلکہ دیگر اقلیتی برادریوں کو بھی متاثر کرے گی۔
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سینئر لیڈر رام لال نے اس کتاب کی مطابقت اور وقت پر زور دیتے ہوئے اسے ’’وقت کی ضرورت‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کتاب مسلم معاشرے میں بیداری اور خود انحصاری کے احساس کو فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوگی۔ رام لال نے کہا کہ وقف املاک کے صاف اور شفاف انتظام کا خیال نہ صرف مسلم سماج بلکہ پورے ملک کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے اسے ایک کوشش کے طور پر بیان کیا جس سے مسلم کمیونٹی کو وقف املاک کے صحیح استعمال کے لیے تحریک ملے گی، تاکہ یہ جائیدادیں سماج کے مختلف طبقوں کے فلاحی کاموں میں مددگار بن سکیں۔
رام لال نے یہ بھی بتایا کہ یہ کتاب سماج کو یہ سمجھنے میں مدد دیتی ہے کہ وقف املاک کسی ایک برادری کی نجی ملکیت نہیں ہیں بلکہ اسے ایک ذمہ داری اور وراثت کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جہاں مسلم کمیونٹی نہ صرف اپنے وسائل سے واقف ہوگی بلکہ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کو بھی سمجھے گی۔‘‘ رام لال نے یہ بھی کہا کہ یہ کوشش وقف املاک کے بہتر انتظام اور اس کے ذریعے سماج کی خدمت کرنے کے لیے سنگ میل ثابت ہوسکتی ہے۔
لال پورہ اور رام لال دونوں نے اس کتاب کو ملک میں سماجی اتحاد اور خیر سگالی کو بڑھانے کی جانب ایک اہم قدم قرار دیا اور کہا کہ یہ دیگر کمیونٹیز کے لیے بھی تحریک کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ انہوں نے اسے مسلم معاشرے کی خود انحصاری اور بیداری کی علامت کے طور پر دیکھا، جو قوم کی تعمیر کے لیے ایک سرشار کوشش کا حصہ۔ ہے۔
بھارت ایکسپریس۔