نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیر اعظم عہدے کا حلف اٹھا چکے ہیں۔
نریندرمودی نے مسلسل تیسری باروزیراعظم عہدے کا حلف لے کرتاریخ رقم کردی ہے۔ پی ایم مودی بی جے پی کے پہلے اورملک کے دوسرے وزیراعظم ہیں، جنہوں نے ہیٹ ٹرک لگائی ہے اورمسلسل تیسری باراقتدارتک پہنچے ہیں۔ نریندرمودی کے ساتھ 71 وزرا نے 9 جون کی شام حلف لیا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ مودی حکومت 3.0 کے کابینہ میں ایک بھی مسلم چہرے کوجگہ نہیں ملی ہے۔ آزادی کے بعد مرکزکی یہ پہلی حکومت ہے، جس کے کابینہ کی تشکیل میں کسی بھی مسلمان کونمائندگی نہیں دی گئی۔ اس طرح نریندرمودی کی قیادت والی مرکزی حکومت میں مسلم نمائندگی کا سلسلہ تین سے شروع ہوکراب صفرپرپہنچ گیا ہے۔
وزیراعظم مودی کی کابینہ کے آخری مسلم وزیرمختارعباس نقوی تھے۔ 2014 میں نریندرمودی کی قیادت میں بی جے پی کی حکومت بنی اورپہلی مدت میں کابینہ میں نجمہ ہبت اللہ، مختارعباس نقوی اور ایم جے اکبرکے طور پر تین مسلم وزیر بنائے گئے تھے۔ نجمہ ہبت اللہ مرکزمیں کابینی وزیرتھیں تو ایم جے اکبراور مختارعباس نقوی وزیر مملکت تھے۔ 2019 میں مختارعباس نقصوی کو دوبارہ سے کابینہ میں جگہ ملی تھی، لیکن 2022 میں راجیہ سبھا کی مدت مکمل ہونے کے بعد مختارعباس نقوی نے وزیرعہدہ چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد سے مرکزی حکومت میں کسی مسلم کوشامل نہیں کیا گیا۔ اس طرح مودی حکومت میں شروع ہوا تین مسلم وزرا کی تعداد اب صفرپرپہنچ گئی ہے۔
مسلم لیڈر شپ ختم؟
جن سنگھ سے ہوتے ہوئے جنتا پارٹی اوربی جے پی کی شروعاتی دورسے پارٹی میں مسلم لیڈرشپ ہوا کرتی تھی۔ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپئی کے دورمیں بی جے پی کے سینئرمسلم لیڈران میں سکندربخت، عارف بیگ، مختارعباس نقوی اورشہنوازحسین ہوا کرتے تھے۔ سکندربخت اورعارف بیگ تو بی جے پی کے بانی اراکین میں سے رہے ہیں۔ شہنوازحسین اورمختارعباس نقوی جیسے لیڈربی جے پی کے ٹکٹ پرلوک سبھا الیکشن میں جیت درج کرچکے ہیں۔ شہنوازحسین تین بار لوک سبھا کا الیکشن جیت چکے ہیں۔ بی جے پی کے کسی مسلم لیڈرکے لئے لوک سبھا الیکشن جیتنا بہت مشکل کام ہوا کرتا تھا۔
مرکزی حکومت میں کیسے صفر ہوگئی مسلم نمائندگی؟
بی جے پی میں ایک وقت سکندربخت، عارف بیگ، مختارعباس نقوی اورشہنوازحسین جیسے مسلم لیڈران کا دبدبہ تھا۔ عارف بیگ کوچھوڑکرباقی تینوں ہی لیڈراٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی حکومت میں وزیررہ چکے ہیں۔ 2014 میں نریندرمودی وزیراعظم بنے تونجمہ ہبت اللہ کابینی وزیربنیں اورمختار عباس نقوی وزیرمملکت بنے۔ اس کے بعد کابینہ کی توسیع میں ایم جے اکبرکو کابینہ میں شامل کیا گیا تھا۔ اس طرح مودی حکومت کی پہلی مدت کارمیں تین مسلم شامل تھے، لیکن اسی مدت میں می ٹومہم کے نشانے پرآئے ایم جے اکبر کو کابینہ سے استعفیٰ دینا پڑا تووہیں نجمہ ہبت اللہ کے گورنربننے کے بعد مختارعباس نقوی کے طور پر واحد مسلم وزیر رہ گئے تھے۔ سال 2019 میں نریندرمودی کی قیادت میں دوسری بار حکومت بنی تو مختارعباس نقوی کو مرکزی کابینہ میں مسلم چہرے کے طور پرجگہ ملی تھی۔ جولائی 2022 میں وزیربرائے اقلیتی امور رہتے ہوئے مختارعباس نقوی کے راجیہ سبھا کی مدت ختم ہوگئی۔ پارٹی نے انہیں راجیہ سبھا میں نہیں بھیجا، جس کی وجہ سے انہیں وزیر عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا اوراس کے ساتھ ہی مودی کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی ختم ہوگئی۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بارہوا ہے کہ مرکزی حکومت میں کوئی مسلمان وزیر نہیں رہ گیا۔
20 کروڑ آبادی کو کردیا گیا نظرانداز؟
ملک میں تیسری بار مودی حکومت بنی، توامید تھی کہ کسی مسلم کووزیربنایا جاسکتا ہے، لیکن 9 جون کوکابینہ کی تشکیل میں کسی بھی مسلم لیڈرکوجگہ نہیں ملی۔ ملک میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 20 کروڑہے، لیکن بھارت سرکارمیں ان کی شراکت داری صفر ہوگئی ہے۔ حالانکہ مودی حکومت میں اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھنے والے 5 وزیربنائے گئے ہیں، جس میں کرن رجیجواورہردیپ پوری کوکابینی وزیربنایا گیا ہے۔ جبکہ رونیت سنگھ بٹو، جارج کورین اور رام داس اٹھاولے وزیرمملکت ہیں۔ کرن رجیجواورکورین عیسائی طبقے سے ہیں توہردیپ پوری اوررونیت سنگھ بٹوسکھ طبقے سے ہیں جبکہ رام داس اٹھاؤلے بودھ دھرم سے ہیں۔ اس طرح کابینہ میں کوئی مسلم وزیرنہیں ہے۔
بی جے پی کے ڈاکٹر عبدالسلام کو ملی ہار
بی جے پی نے 2014 کے لوک سبھا الیکشن میں الگ الگ سیٹوں پرسات مسلمانوں کوٹکٹ دیا تھا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مسلم لیڈراپنی سیٹ پرجیت حاصل کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اس کے بعد 2019 کے لوک سبھا الیکشن میں بی جے پی نے 6 مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا، لیکن وہ بھی جیتنے میں ناکام رہے۔ اس بار 2024 کے الیکشن میں بی جے پی نے کیرلا کی ملّپ پورم سیٹ سے ڈاکٹرعبدالسلام کوٹکٹ دیا تھا، لیکن وہ اس سیٹ سے ہار گئے۔ اگردیکھا جائے توایک طرف مسلم سماج نے بی جے پی کا ساتھ نہیں دیا تو بی جے پی نے بھی ان سے کنارہ کشی اختیارکرلی ہے۔
مسلم اراکین پارلیمنٹ کی تعداد میں کمی
حالانکہ سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اور مودی حکومت میں مسلم چہرے کا ہونا محض ایک رسم نبھانے جیسی بات ہی ہوتی ہے، لیکن 14 فیصد آبادی کی نمائندگی نہیں ہونا تشویش کی بات ضرور ہے۔ سیاسی پنڈت یہ بھی مان رہے ہیں کہ اب ملک میں مسلم سیاست پوری طرح سے غیرمؤثرہوتی جارہی ہے، نہ صرف بی جے پی بلکہ نام نہاد سیکولر پارٹیاں بھی انہیں ٹکٹ دینے اور سیاست میں آگے لانے سے گریز کررہی ہیں۔ الیکشن لڑنے کے محدود مواقع کی وجہ سے موجودہ لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی بھی کم ہوگئی ہے۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں مسلم اراکین پارلیمنٹ کی تعداد صرف 24 رہ گئی ہے۔ جبکہ 2014 کے لوک سبھا الیکشن سے پہلے یہ تعداد 30 سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔
این ڈی اے میں کوئی مسلم چہرہ نہیں جیت سکا الیکشن
این ڈی اے ہی نہیں بلکہ اپوزیشن انڈیا الائنس نے بھی مسلمانوں کو الیکشن میں ٹکٹ دینے میں کنجوسی سے کام لیا ہے۔ اس کی وجہ سے گزشتہ الیکشن میں 27 کے مقابلے اس بار 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں محص 24 اراکین اسمبلی منتخب ہوکرآئے ہیں۔ کانگریس نے 19، سماجوادی پارٹی نے 4، آرجے ڈی نے 2، ٹی ایم سی نے 6 اور بی ایس پی نے 23 مسلم امیدواراتارے تھے۔ اس کے علاوہ این ڈی اے نے 4 مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا، جس میں بی جے پی اور جے ڈی سے ایک ایک مسلم امیدوارتھے۔ حالانکہ این ڈی اے کے کسی بھی مسلم امیدوارکو جیت نہیں مل سکی۔ 2024 کے لوک سبھا الیکشن میں مغربی بنگال سے 6، جموں وکشمیر سے تین اوربہار، کیرلا سے دو دو مسلم اراکین پارلیمنٹ ہیں۔ لکشدیپ، آسام، تمل ناڈو، تلنگانہ اور لداخ سے ایک ایک مسلم امیدوار جیت پارلیمنٹ پہنچے ہیں۔ این ڈی اے کے کسی بھی اتحادی پارٹی سے کوئی بھی مسلم جیت کر پارلیمنٹ نہیں پہنچا ہے۔ جے ڈی یو-ٹی ڈی پی اورایل جے پی سے کوئی بھی مسلم نہ ہی لوک سبھا کا رکن ہے اور نہ ہی راجیہ سبھا کا۔ غلام علی کھٹانا ضرور نامزد راجیہ سبھا ہیں، جو جموں وکشمیرسے آتے ہیں اور بی جے پی کے سینئرلیڈر ہیں۔ بی جے پی چاہتی تو مرکز میں مسلم چہرے کے طور پرشامل کرسکتی تھی، لیکن انہیں بھی موقع نہیں ملا۔ آزادی کے بعد پہلی حکومت ہے، جس میں کوئی بھی مسلم وزیر شامل نہیں ہے۔