Bharat Express

شریعت کے خلاف کوئی بھی قانون ہمیں منظور نہیں، مولانا ارشدمدنی کا یونیفارم سول کوڈ پر سخت ردعمل

جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی مدنی نے سوال کیا کہ اگرآئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتا ہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے

’فرقہ واریت اور بدامنی پھیلانے والوں پر پایا جائے گا قابو‘، سپریم کورٹ کے فیصلے پر مولانا ارشد مدنی کا بیان

نئی دہلی: اتراکھنڈمیں یکساں سول کوڈکو نافذ کرنے کے ریاستی سرکارکے فیصلہ پرصدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی نے اپنے شدید ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ہمیں کوئی ایسا قانون منظورنہیں جو شریعت کے خلاف ہو، کیونکہ مسلمان ہرچیزسے سمجھوتہ کرسکتا ہے ا پنی شریعت اوردھرم سے ہرگزہرگزکوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے کہا کہ اتراکھنڈ میں آج یکساں سول کوڈ کا جو بل منظورہوا ہے، اس میں درج فہرست قبائل کو ہندوستان کے آئین کی دفعہ 366کے باب 25کی ذیلی دفعہ 342کے تحت نئے قانون سے مستثنیٰ کردیا گیا ہے اوریہ دلیل دی گئی ہے کہ آئین کی دفعہ21کے تحت ان کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے۔

مولانا ارشد مدنی مدنی نے سوال کیا کہ اگرآئین کی ایک دفعہ کے تحت درج فہرست قبائل کو اس قانون سے الگ رکھا جاسکتا ہے توآئین کی دفعہ 25،26 کے تحت ہمیں مذہبی آزادی کیوں نہیں دی جاسکتی ہے، جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تویکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اگریہ یکساں سول کوڈ ہے توپھرشہریوں کے درمیان یہ امتیازکیوں؟ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہماری لیگل ٹیم اس بل کے قانونی پہلوؤں کا جائزہ لے گی، اس کے بعد قانونی چارہ جوئی کے بارے میں فیصلہ لیاجائے گا۔ سچ تویہ ہے کہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا اپنے مذہبی امورمیں کسی طرح کی بے جا مداخلت کو برداشت نہیں کرسکتا۔

یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول

انہوں نے کہا کہ ہندوستان جیسے تکیثری ملک میں جہاں مختلف مذاہب کے ماننے والے صدیوں سے اپنے اپنے اعتقادات اورمذہبی ریت اوررواج پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل پیرا ہیں، وہاں آج یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کا ہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے، اس لئے یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے، اورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے، یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے، لیکن آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا، یہ عجیب وغریب بات ہے، ہمارے یہاں کی IPC،CRPC کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہو جاتی ہے، ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے جو قانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے ملک میں ریزرویشن کے تعلق سے سپریم کورٹ نے اس کی حد 50 فیصد مقرر کی ہے لیکن مختلف صوبوں میں 50 فیصد سے زیادہ ریز رویشن دیا گیا ہے۔

پورے ملک میں ایک فیملی لاء لاگوکرنے پرزورکیوں؟

جمعیۃ علماء ہند کے صدرنے سوال کیا کہ جب پورے ملک میں سول لاء ایک نہیں ہے تو پھرملک بھر میں ایک فیملی لاء لاگوکرنے پرزورکیوں؟ ہمارا ملک کثیرتہذیبی اورکثیر مذہبی ملک ہے، یہی اس کی خصوصیت بھی ہے، اس لئے یہاں ایک قانون نہیں چل سکتا، جو لوگ دفعہ 44 کی آنکھ بند کرکے وکالت کرتے ہیں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ اسی دفعہ کے تحت یہ بات بھی کہی گئی اور یہ بھی مشورہ دیا ہے کہ پورے ملک میں شراب پر پابندی لگائی جائے، امیرغریب کے درمیان کی خلیج کو ختم کیا جائے، سرکاریہ کام کیوں نہیں کرتی؟ کیا یہ ضروری نہیں؟ سوال یہ ہے کہ جن باتوں پرکسی کواختلاف نہیں اورجو سب کے لئے قابل قبول ہو سکتا ہے، سرکاراسے کرنے سے گریزکیوں کرتی ہے؟ دوسری طرف جو چیزیں اختلافی ہیں، اسے ایشو بنا کر آئین کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔

مسلمانوں کو مسلسل خوف وانتشار میں رکھنے کی سازش

مولانا مدنی نے کہا کہ ہم یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے جو فیملی لاء ہیں وہ انسانوں کا بنایا قانون نہیں ہے، وہ قرآن مجید وحدیث سے ماخوذ ہیں، اس پرفقہی مباحث تو ہوسکتے ہیں، لیکن بنیادی باتوں پرہمارے یہاں کوئی اختلاف نہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پر قدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہے، لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلا نہیں ہونا چاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کوساتھ لے کرجمعیۃعلماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جو ملک کے اتحاداورسالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہے بلکہ سماج کو تعصب کی بنیاد پرتقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے خمیرمیں ہزاروں برس سے نفرت نہیں محبت شامل ہے کچھ عرصہ کے لئے نفرت کو کامیاب ضرورکہا جاسکتاہے لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

 

Also Read