جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے نوح کے تشدد کو پہلے سے منصوبہ بند اور دل دہلا دینے والا قرار دیاہے۔ انہوں نے آج ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے ایک وفد نے نوح، میوات اور آس پاس کے تشدد سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ انہوں نے فسادات سے متاثرہ علاقوں کے بارے میں جو رپورٹ پیش کی ہے وہ دل دہلا دینے والی ہے۔ مولانا ارشد مدنی نے مزید کہا کہ رپورٹ سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ فساد کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی۔ اس میں پولیس اور انتظامیہ کا کردار قابل اعتراض رہا ہے جس کے کئی ویڈیوز وائرل ہو چکے ہیں۔
नूह और मेवात फसाद एक सोची समझी साजिश का नतीजा है हरियाणा हुकूमत और पुलिस का किरदार मशकूक है, बेगुनाहों को फसादी बनाकर पेश किया जा रहा है, फसाद के दौरान भी मुसलमानों ने अपने पड़ोसी हिंदू भाइयों और उनके मंदिरों की हिफाजत की है।#ArshadMadani#NuhViolence pic.twitter.com/hjq2yQanqC
— Arshad Madani (@ArshadMadani007) August 6, 2023
بیان میں مزید کہا گیا کہ نوح اور میوات فسادات ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہیں، ہریانہ حکومت اور پولیس کا کردار مشکوک ہے، بے گناہوں کو فسادیوں کے طور پر پیش کیا جارہا ہے، فسادات کے دوران بھی مسلمانوں نے اپنے پڑوسی ہندو بھائیوں اور اپنے مندروں کی حفاظت کی ہے۔ یاد رہے کہ فسادات سے کسی خاص طبقے، یا فرد کو نہیں بلکہ سب سے زیادہ ملک اور اس کے وقار کو نقصان پہنچتا ہے۔ حکمرانوں کو اس حساس معاملے پر سوچنا چاہیے، لیکن افسوس ہے کہ سیاستداں اور حکمراں طاقتیں مذہبی لبادےکو اوڑھ کرنفرت کی سیاست کررہی ہیں۔اور یہ سب اس لئے ہورہا ہے تاکہ اقتدار پر قابض رہ سکے، یہ رجحان یقینی طور پر انتہائی خطرناک ہے۔ پہلے انتخابات بے روزگاری اور مہنگائی جیسے مدعوں پر ہوتے تھے لیکن آج مذہب کے نام پر سیاست ہورہی ہے اور اقتدار پر قبضہ جمانے کیلئے مذہب کا ناجائز استعمال کیا جارہا ہے۔
Riots do not harm any particular sect, class or individual, but the country, and its dignity is harmed. The rulers should think about this sensitive issue,#ArshadMadani#Mewatviolence pic.twitter.com/OpH9xlAEmJ
— Arshad Madani (@ArshadMadani007) August 6, 2023
ہریانہ کے نوح ضلع میں 31 جولائی کو وی ایچ پی کے مذہبی یاتراکے دوران تشدد بھڑک اٹھاتھا۔ جس میں ہوم گارڈ کے دو سپاہیوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔یہ تشدد گروگرام تک پھیل گیا تھا۔ تشدد کے حوالے سے اب تک 106 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور 216 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ 24 ایف آئی آر سوشل میڈیا پوسٹس کے خلاف ہیں اور چار لوگوں کو سوشل میڈیا پوسٹس کے سہارے گرفتار کیا گیا ہے۔
بھارت ایکسپریس۔