Bharat Express

Shahi Idgah Masjid Row: متھرا شاہی عید گاہ مسجد سے متعلق ہندو فریق کاکیا ہے دعویٰ؟ جانئے 350 سال پرانی مسجد کا تنازعہ

الہ آباد ہائی کورٹ نے 14 دسمبر 2023 کوکرشن جنم بھومی اورشاہی عید گاہ مسجد کے مقام کے سروے کی منظوری دی تھی اورایڈوکیٹ کمشنرکے ذریعہ سروے کرانے کا حکم دیا تھا، جس پر اب سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے۔

شاہی عیدگاہ معاملہ میں سپریم کورٹ میں آج سماعت نہیں ہو سکی۔

سپریم کورٹ نے متھرا واقع شاہی عید گاہ مسجد کے سروے پرروک لگا دی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ نے متھرا میں کرشن جنم بھومی مندر سے متصل شاہی عید گاہ مسجد میں کمشنرسروے کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے شاہی عید گاہ کے سروے پرالہ آباد ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف مسجد کمیٹی کی عرضی پرجواب مانگا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ نے 14 دسمبر 2023 کوکرشن جنم بھومی اورشاہی عید گاہ مسجد کے مقام کے سروے کی منظوری دی تھی اورایڈوکیٹ کمشنرکے ذریعہ سروے کرانے کا حکم دیا تھا، جس پر اب سپریم کورٹ نے روک لگا دی ہے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ اس جگہ پر بھگوان شری کرشن کا مندر تھا، جسے مغل دورمیں مندرتوڑکریہاں مسجد بنا دی گئی۔

کیا ہے 350 سال پرانا تنازعہ

یہ پورا تنازعہ 13.37 ایکڑزمین کے مالکانہ حق سے متعلق ہے۔ اس زمین میں شری کرشن مندرہے۔ 2.37 ایکڑ حصہ شاہی عید گاہ مسجد کے پاس ہے۔ ہندو فریق یہاں شری کرشن جنم بھومی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس پورے تنازعہ کی شروعات 350 سال پہلے ہوئی تھی، جب دہلی کے اقتدارپراورنگ زیب کا قبضہ تھا۔ ہندو فریق کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مغل حکمراں اورنگ زیب نے 1670 میں متھرا کی شری کرشن جنم بھومی مندرکو توڑنے کا حکم دیا تھا اورپھریہاں شاہی عید گاہ مسجد بنائی گئی۔ مسجد بننے کے بعد یہ زمین مسلمانوں کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ تقریباً 100 سال تک یہاں ہندوؤں کی انٹری پرپابندی لگی ہوئی تھی۔ پھر 1770 میں مغل-مراٹھا کے درمیان جنگ  ہوئی۔ جنگ میں مراٹھوں کی جیت ہوئی اورمراٹھوں نے مندرکی تعمیرکرائی۔ اس کا نام کیشودیا مندرہوا کرتا تھا۔ اس درمیان زلزلہ کی چپیٹ میں آکرمندرکو نقصان ہوا۔

انگریزوں نے نیلام کردی تھی زمین

سال 1815 میں انگریزوں نے زمین کو نیلام کردیا، جسے کاشی کے راجا نے خرید لیا۔ حالانکہ کاشی کے راجا مندرنہیں بنوا سکے۔ ہندو فریق کا دعویٰ ہے کہ یہ زمین خالی پڑی رہی۔ جس کے بعد مسلمان اسی زمین پردعویٰ کرنے لگے۔ وہیں اس معاملے میں مسلم فریق کے دعوے کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ مسلم فریق کا واضح طورپر کہنا ہے کہ مسجد کی جگہ کوئی مندر نہیں ہے اورنہ ہی کوئی مندرتوڑکر مسجد بنائی گئی ہے۔ مسلم فریق نے کہا کہ مسجد اپنے اصل مقام ہے اوراس کے دستاویز بھی موجود ہیں۔

1951 میں شری کرشن جنم استھان ٹرسٹ کا قیام

بتایا جاتا ہے کہ مشہورصنعت کارجگل کشوربڑلا نے 1944 میں یہ زمین خرید لی۔ زمین کا سودا راجا پٹنی مل کے وارثوں کے ساتھ ہوا تھا۔ اس دوران ملک آزاد ہوا۔ 1951 میں شری کرشن جنم استھان ٹرسٹ بنا، جس کے بعد یہ زمین ٹرسٹ کو دے دی گئی۔ سال 1953 میں ٹرسٹ کے پیسے سے زمین پرمندرکی تعمیرشروع کی، جو 1958 میں بن کرتیارہوا۔ 1958 میں شری کرشن جنم استھان سیوا سنستھان نام سے نئی تنظیم (سنگٹھن) بنی۔ اسی ادارے نے 1968 میں مسلم فریق کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ اس میں کہا گیا کہ زمین پر مندراورمسجد دونوں رہیں گے۔ اب کہا جاتا ہے کہ جنم بھومی پرکوئی قانونی دعویٰ نہیں ہے۔ وہیں، شری کرشن جنم استھان ٹرسٹ کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو نہیں مانتا۔

ہندو فریق کے دعوے کی کیا ہے بنیاد؟

ہندو فریق نے 15 دسمبر2023 کو سپریم کورٹ میں کہا ہے کہ یوپی سنی سینٹرل وقف بورڈ اورشاہی عید گاہ مسجد کمیٹی کو فوراً ایکوائرکی گئی زمین کو خالی کرنا چاہئے۔ عرضی میں شری کرشن جنم بھومی ٹرسٹ کو یہ زمین جلدازجلد سونپے جانے کی اپیل کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کرشن جنم بھومی سے متعلق 13.37 ایکڑ کے احاطے میں مسلم فریق کے داخل ہونے پرروک لگانے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ ہندو فریق کے وکیل وشنو شنکرجین نے عدالت کو بتایا کہ مسجد کی دیواروں پر جونشان بنا ہے، وہ ہندو طرزکا ہے۔ مسجد کے ستون کے اوپرایک کنول بنا ہوا ہے۔ اس لئے ہندو فریق نے مسجد کوہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

عید گاہ مسجد کمیٹی اوروقف بورڈ کا کیا ہے دعویٰ؟

 شاہی عیدگاہ مسجد کمیٹی اوریوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کا استدلال ہے کہ شاہی عیدگاہ مسجد کٹرا کیشو دیومیں 13.37 ایکڑاراضی کے تحت نہیں آتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ درخواست گزاروں کا یہ دعویٰ کہ بھگوان شری کرشن کی جائے پیدائش مسجد کے نیچے ہے، بالکل بے بنیاد ہے۔ اس میں دستاویزی ثبوت کی کمی ہے۔ ہندو فریق کی طرف سے مسجد کوہٹانے کے مطالبے پر، مسلم فریق ‘عبادت کے مقامات ایکٹ’ کی دلیل دیتا ہے۔

Also Read