جے ڈی یو نے آسام میں جمعہ نماز کا وقفہ ختم کئے جانے پر بی جے پی کی مخالفت کی ہے۔ (فائل فوٹو)
آسام اسمبلی میں مسلم اراکین کوجمعہ کی نمازکے لئے اب دوگھنٹے کا بریک نہیں ملے گا۔ اسمبلی اسپیکر وشوجیت دیماری نے جمعہ کے روز یہ فیصلہ کیا۔ اسمبلی اسپیکر کے فیصلے کی جانکاری وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما نے دی۔ اسپیکرکا یہ فیصلہ اسمبلی کے آئندہ سیشن سے نافذ ہوجائے گا۔ آسام حکومت کے فیصلے سے متعلق سیاست بھی تیزہوگئی ہے۔ بی جے پی اتحادی پارٹی جے ڈی یو نے آسام حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔
بہار کے سابق وزیر اورجے ڈی یوکے چیف ترجمان نیرج کمارنے کہا کہ آسام حکومت کا فیصلہ آئین کے اصولوں کے خلاف ہے۔ سبھی مذاہب کو اپنی روایات اور رسم ورواج کوبرقراررکھنے کا اختیارہے۔ آسام کے وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ اس سے کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوگا۔ پھرمیں ان سے کامکھیا مندرمیں ’بلی پرتھا‘ کو بند کرنے کے لئے کہنا چاہوں گا۔ کسی کو بھی مذہبی روایات پرحملہ کرنے کا حق نہیں ہے۔
این ڈی اے کا حصہ ہےجے ڈی یو، پھربھی رخ مختلف
موجودہ وقت میں جے ڈی یو این ڈی اے کا حصہ ہے۔ مرکزی حکومت میں جے ڈی یو کا اہم کردارہے۔ دوسری طرف بہار میں نتیش کماربی جے پی کے ساتھ مل کرحکومت چلا رہے ہیں۔ اس کے بعد بھی جمعہ کی نمازسے متعلق جے ڈی یوکا رخ بالکل الگ ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آسام کی حکومت سے جے ڈی یو کا کوئی لینا دینا نہیں ہے، نہ ہی آسام میں جے ڈی یو کی موجودگی ہے۔ جے ڈی یوکے علاوہ بہار کی اپوزیشن پارٹی آرجے نے بھی آسام حکومت کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔ آرجے ڈی لیڈر تیجسوی یادونے کہا کہ آسام کے وزیراعلیٰ سستی مقبولیت حاصل کرنے اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے چائنیزورژن بننے کی کوشش میں جان بوجھ کرمسلمانوں کو پریشان کرنے والے کام کرتے رہتے ہیں۔
تیجسوی یادو نے کہا- مسلمانوں کو سافٹ ٹارگیٹ بنارہی ہے بی جے پی
تیجسوی یادو نے مزید کہا کہ بی جے پی کے لوگوں نے نفرت پھیلانے اور معاشرے میں پولرائزیشن کے لئے مسلمانوں بھائیوں کو سافٹ ٹارگیٹ بنا لیا ہے۔ ملک کی آزادی میں آرایس ایس چھوڑکر سبھی مذہب کے لوگوں کا تعاون ہے۔ ہمارے مسلمان بھائیوں نے ملک کو آزادی دلانے میں قربانیاں دی ہیں اورہم لوگ جب تک ہیں تب تک کوئی ان کا بال بیکا نہیں کرسکتا۔
اے آئی یوڈی ایف نے کہی یہ بڑی بات
وہیں، گوہاٹی میں آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) رکن اسمبلی مجیب الرحمٰن نے کہا کہ ہرجمعہ کوہمیں نماز کے لئے ایک گھنٹے یا دوگھنٹے ملتے تھے۔ یہ نظام 1936 سے چلا آرہا تھا۔ تقریباً 90 سال گزر چکے ہیں۔ بہت ساری حکومتیں اوروزیراعلیٰ آئے، لیکن انہیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ موجودہ وزیراعلیٰ ہیمنت بسوا سرما کو کیا پریشانی ہے۔ وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔