جموں و کشمیر میں اسمبلی انتخابات کے اعلان کے ساتھ ہی تمام جماعتوں نے اپنی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ لیکن ملک کی سب سے پرانی پارٹی کانگریس اب بھی تذبذب کا شکار ہے۔ پہلی الجھن یہ ہے کہ جموں و کشمیر میں کانگریس کس کے ساتھ اتحاد کرنے جا رہی ہے – پی ڈی پی یا نیشنل کانفرنس؟ سوال یہ بھی ہے کہ کانگریس اس بار اتحاد کے لیے اتنی بے چین کیوں نظر آرہی ہے؟
اب ان تمام سوالوں کا ایک جواب واضح ہے ۔دراصل جموں و کشمیر میں کانگریس سال بہ سال کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اسمبلی انتخابات کے اعداد و شمار بھی اس حقیقت کی تصدیق کرتے ہیں کہ جو پارٹی کبھی فیصلہ کن کردار ادا کرتی تھی، اب مقامی جماعتوں کے رحم و کرم پر آچکی ہے۔ اسے دوسری پارٹیوں سے اضافی سیٹوں کا مطالبہ کرنا پڑتا ہے۔ مانا جا رہا ہے کہ کانگریس اکیلے الیکشن نہیں لڑے گی، اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ نیشنل کانفرنس کے ساتھ اتحاد کرے گی۔ یہ وہ وجوہات ہیں جو بتاتی ہیں کہ اتحاد کانگریس کے لیے ایک بڑی مجبوری کیوں ہے۔
اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کارکردگی
کانگریس کو اس وقت اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ جموں و کشمیر میں اپنے طور پر اس کی کارکردگی کچھ خاص نہیں رہی ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ 2014 کے انتخابات میں اس نے اپنی تیسری بدترین کارکردگی پیش کی تھی۔ دراصل 2014 کے اسمبلی انتخابات میں کانگریس صرف 12 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھی جبکہ اس سے پہلے 1996 میں اس نے 7 سیٹیں جیتی تھیں۔ 1977 میں یہ صرف 11 نشستوں تک محدود تھی۔ ایسے میں وقت کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر میں پارٹی کی کارکردگی خراب ہوتی جا رہی ہے۔ کانگریس اس حقیقت کو لے کر بھی پریشان ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کا ووٹ شیئر صرف ایک بار 30 فیصد سے زیادہ تھا، ورنہ ہر الیکشن میں یہ 20 فیصد کے قریب دیکھا گیا۔
غلام نبی کانگریس سے ‘آزاد’ ہوگئے
کانگریس اس حقیقت سے بھی پریشان ہے کہ جموں و کشمیر میں اس کا کوئی بڑا مقبول چہرہ نہیں ہے۔ کسی زمانے میں غلام نبی آزاد اس خلا کو پر کرتے تھے۔ وہ نہ صرف جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ تھے، اس کے ساتھ ان کی مقبولیت بھی کافی زیادہ تھی۔ ایسے میں انہوں نے دوسری جماعتوں سے رابطہ برقرار رکھنے اور عوام سے رابطہ قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ لیکن وہی غلام نبی آزاد اب کانگریس چھوڑ چکے ہیں۔ انہوں نے جموں و کشمیر میں اپنی پارٹی بنائی ہے۔ ان کی جانب سے ان کی پارٹی کا نام ڈیموکریٹک پروگریسو آزاد پارٹی رکھا گیا ہے۔اب آزاد نے کانگریس کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بی جے پی مخالف ووٹوں میں مزید بکھرنے کا امکان ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آزاد کی مقبولیت پورے جموں و کشمیر میں یکساں نہیں ہے، لیکن پیر پنجال اور چناب کے علاقوں میں ان کی گرفت مضبوط سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں جموں کے ان علاقوں میں بھی جہاں بی جے پی کو کسی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ سکتا تھا، آزاد کی پارٹی اب کانگریس کو نقصان پہنچانے کا کام کر سکتی ہے۔ ایسے میں کانگریس ووٹوں کے بکھرنے کو روکنے کے لیے اتحاد کی تلاش میں ہے۔
کیڈر کی کمی، روڈ میپ تیار نہیں
جموں و کشمیر میں کانگریس کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس زمین پر کوئی مضبوط کیڈر نہیں ہے جو اسے بڑھا سکے۔ یہاں تک کہ اگر دہلی سے کوئی حکم آتا ہے تو اس پر عمل درآمد کے لیے زمین پر کافی کارکن موجود نہیں ہوتے۔ اس کے اوپر جہاں دیگر پارٹیوں نے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی ہے وہیں ریلیاں بھی نکالی گئی ہیں، جبکہ کانگریس کااب تک روڈ میپ دھندلا دکھائی دے رہا ہے۔ ماہرین کا یہاں تک کہنا ہے کہ جہاں پی ڈی پی اور این سی کے پارٹی دفاتر میں گہما گہمی کا زبردست ماحول ہے، وہیں جموں و کشمیر میں کانگریس کے دفاتر ٹھنڈے ہیں اور وہاں ابھی تک کوئی انتخابی شور نہیں سنائی دے رہا ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے کانگریس اتحاد کی تلاش میں ہے۔ اس نے اتر پردیش میں ایس پی کے ساتھ اتحاد کرکے کچھ ایسا ہی دکھایا ہے۔
کانگریس کئی سالوں سے اقتدار سے دور ہے
کانگریس کے سامنے ایک اور چیلنج یہ ہے کہ وہ پچھلے کئی سالوں سے جموں و کشمیر میں اقتدار سے محروم رہی ہے۔ اس کے آخری وزیر اعلیٰ 2005 اور 2008 کے درمیان تھے، وہ عہدہ بھی کچھ عرصہ غلام نبی آزاد کے پاس رہا جو اب پارٹی چھوڑ چکے ہیں۔ ایسے میں طویل سیاسی جلاوطنی کارکنوں کے حوصلے کو بھی متاثر کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اب جموں و کشمیر میں حکومت بنا کر خود کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن کانگریس کو احساس ہے کہ اکیلے الیکشن لڑ کر حکومت بنانا مشکل ہو سکتا ہے، ایسے میں این سی سے ہاتھ ملا کر ہی یہ راستہ عبور کیا جا سکتا ہے۔
حد بندی کے بعد حالات بدل گئے
جموں کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد جو حد بندی ہوئی ہے، اس کی وجہ سے پورے علاقے کی صورتحال بدل گئی ہے۔ اب جموں بھی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے جا رہا ہے، وہاں کی نشستوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ کشمیر کے علاقوں میں نیشنل کانفرنس کی اچھی موجودگی ہے جبکہ جموں کے علاقے میں کانگریس کو زیادہ ووٹ ملتے ہیں۔ خود جموں میں بی جے پی کو پہلے ہی مضبوط سمجھا جاتا ہے، اس لیے کانگریس اسے چیلنج کرنے کے لیے نیشنل کانفرنس کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ ایسا کرنے سے اگر این سی کو جموں میں کانگریس کی حمایت حاصل ہوتی ہے تو دوسری طرف کشمیر میں نیشنل کانفرنس کانگریس کی کمزوری کو پورا کرنے کا کام کر سکتی ہے۔
درحقیقت، حد بندی کے بعد جموں و کشمیر میں نشستوں کی کل تعداد اب 114 رہ گئی ہے، جس میں پاکستان کے زیر قبضہ کشمیر کی 24 نشستیں شامل ہیں۔ اگر ان 24 سیٹوں کو ہٹا دیا جائے تو 90 اسمبلی سیٹیں رہ جاتی ہیں۔ پہلے یہ تعداد 83 تھی، اس لیے کل سات سیٹیں بڑھی ہیں۔ یہاں بھی جموں ڈویژن میں 6 نشستوں کا اضافہ ہوا ہے جبکہ کشمیر ڈویژن میں ایک نشست کا اضافہ ہوا ہے۔ جموں خطے میں 43 سیٹیں ہونے جا رہی ہیں اور اب کشمیر ڈویژن میں 47 سیٹیں ہوں گی۔
بھارت ایکسپریس۔