Bharat Express

Jamiat Ulema-E-Hind on یکساں سول کوڈکے نفاذ کے فیصلے کے خلاف عدالت پہنچی جمعیۃعلماء ہند، مولانا ارشد مدنی نے کہا- مسلمانوں کو یہ قانون منظورنہیں

مولانا ارشد مدنی نے یہ بھی کہا کہ آئی پی سی کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے، جوقانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے۔

پلیسیز آف ورشپ ایکٹ سے متعلق سپریم کورٹ نے اسٹے برقرار رکھا ہے۔

نئی دہلی: اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ نافذ کرنے کے خلاف، صدرجمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کی ہدایت پرجمعیۃ علماء ہند اتراکھنڈ نے نینی تال ہائی کورٹ میں آج ایک پٹیشن داخل کی اورچیف جسٹس کے سامنے مینشن بھی کیا اوراس پراسی ہفتے عدالت میں سماعت متوقع ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کی طرف سے اس اہم مقدمے کی پیروی سپریم کورٹ کے سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کریں گے۔ مولانا مدنی نے اس پٹیشن پراپنے رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ ملک کے آئین اورجمہوریت اورقانون کی بالادستی کو قائم رکھنے کے لئے جمعیۃ علماء ہند نے عدالت کا رخ اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ ہمیں انصاف ملے گا۔ کیونکہ ہمارے لئے آخری سہارا عدالتیں ہی رہ جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایسا کوئی قانون منظورنہیں جوشریعت کے خلاف ہو، مسلمان ہرچیزسے سمجھوتہ کرسکتا ہے، لیکن اپنی شریعت اورمذہب سے ہرگزہرگز کوئی سمجھوتہ نہیں کرسکتا ہے۔ یہ مسلمانوں کے وجود کا نہیں بلکہ ان کے حقوق کا سوال ہے۔ موجودہ حکومت یکساں سول کوڈ ایکٹ لاکر مسلمانوں سے وہ حقوق چھین لینا چاہتی ہے جو اسے ملک کے آئین نے دیئے ہیں۔ کیونکہ ہمارے عقیدے کے مطابق جو ہمارے عائلی قوانین ہیں وہ انسان کے بنائے ہوئے قوانین نہیں ہیں وہ قرآن مجید اور احادیث سے ماخوذ ہیں۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ جو لوگ کسی مذہبی پرسنل لا پر عمل نہیں کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ملک میں پہلے ہی سے ایک اختیاری سول کوڈ موجود ہے تو پھر یونیفارم سول کوڈ کی ضرورت کیوں ہے؟اورپھر یہ کہ یکساں سول کوڈکا نفاذآئین میں شہریوں کودیئے گئے بنیادی حقوق سے متصادم ہے، سوال مسلمانوں کے پرسنل لاء کا نہیں بلکہ ملک کے سیکولرآئین کو اپنی حالت میں باقی رکھنے کاہے، کیونکہ ہندوستان ایک سیکولرملک ہے اوردستورمیں سیکولرازم کے معنی یہ ہیں کہ ملک کی حکومت کااپنا کوئی مذہب نہیں ہے اور ملک کے عوام اپنے مذہبی معاملات میں آزاد ہیں، اس لئے یکساں سول کوڈمسلمانوں کے لئے ناقابل قبول ہے، اورملک کی یکجہتی اورسالمیت کے لئے بھی نقصاندہ ہے، انہوں نے آگے کہا کہ یکساں سول کوڈکے نفاذکے لئے، دفعہ 44 کو ثبوت کے طور پر پیش کیاجاتا ہے اوریہ پروپیگنڈہ کیا جاتاہے کہ یکساں سول کوڈکی بات توآئین میں کہی گئی ہے جبکہ دفعہ 44رہنمااصول میں نہیں ہے، بلکہ ایک مشورہ ہے۔ دوسری طرف آئین کی ہی دفعہ 25، 26 اور 29 کا کوئی ذکر نہیں ہوتا جن میں شہریوں کے بنیادی حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے، اور مسلم پرسنل لا ء کو شریعت اپلیکیشن ایکٹ 1937 کے ذریعہ بھی تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ یوں بھی کسی ریاست کو یو سی سی بنانے کا اختیار نہیں ہے۔اس طرح دیکھا جائے تو یکساں سول کوڈ بنیادی حقوق کی نفی کرتا ہے، اس کے باوجود ہماری حکومت کہتی ہے کہ ایک ملک ایک قانون ہوگا اور یہ کہ ایک گھر میں دو قانون نہیں ہو سکتا، یہ عجیب وغریب بات ہے۔

مولانا ارشد مدنی نے یہ بھی کہا کہ آئی پی سی کی دفعات بھی پورے ملک میں یکساں نہیں ہیں، ریاستوں میں اس کی نوعیت تبدیل ہوجاتی ہے، یہاں تک کہ ملک میں گؤکشی کا قانون بھی ایک نہیں ہے، جوقانون ہے وہ پانچ ریاستوں میں نافذ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آزادی سے پہلے اورآزادی کے بعد جب جب فرقہ پرستوں کی جانب سے شریعت میں مداخلت کی کوشش ہوئی ہے۔ جمعیۃعلماء ہند نے پوری قوت کے ساتھ اس کا مقابلہ کیا ہے ہندوستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی حکومت ہند کو شریعت کے تعلق سے قانون سازی کی ضرورت محسوس ہوئی تو جمعیۃعلماء ہندکی رہنمائی کے بغیر وہ قانون پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکا۔ جیسا کہ شریعت ایکٹ اور انفساخ نکاح۔ قوانین ہند میں دوا یکٹ ایسے ہیں جن میں جمعیۃعلماء ہند کا نام اور اس کی کوششوں کا تذکرہ ہے۔چنانچہ قوانین ہند کے ریکارڈ میں شریعت بل کے نفاذ سے متعلق جمعیۃعلماء ہندکا ان الفاظ میں ذکر ہے:شریعت بل 1937 سے پہلے روایتی قوانین رائج تھے، ان کی جگہ شریعت بل کے نفاذ کے سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند نے پر زور مطالبہ کیا جو کہ مسلمانوں کی Greatest واحد نمائندہ تنظیم ہے اورجمعیۃعلماء ہندکے ہی مطالبہ پر شریعت بل 1937 پاس کیا گیا۔)اعلانیہ اغراض و مقاصد ( Statement of Objects and Reasons (P-1)اسی طرح 1939میں انفساخ نکاح بل کے سلسلہ میں قوانین ہند میں یہ جملہ موجود ہے: جمعیۃعلماء ہند کی Opinion یعنی رائے پر یہ قانون پاس کیا جا رہا ہے۔“ (مذاکرات مجلس مقننہ (Debate of Legislature……..)(P9)
جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ ہندوستان کے دستورمیں جمعیۃ علماء ہند کے سوا کسی دوسری جماعت کا ذکرنہیں ہے، جولوگ دستورمیں کہی گئی باتوں کی اہمیت کونہیں جانتے آج اپنی طرف سے جوچاہتے ہیں، تشریح کرجاتے ہیں۔ چنانچہ یہ کہنا بالکل درست معلوم ہوتا ہے کہ یکساں سول کوڈکا نفاذ شہریوں کی مذہبی آزادی پرقدغن لگانے کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ فرقہ پرست طاقتیں نت نئے جذباتی اورمذہبی مسائل کھڑے کرکے ملک کی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو مسلسل خوف اورانتشارمیں مبتلارکھنا چاہتی ہیں اور ملک کی آئین کو آگ لگانا چاہتی ہیں لیکن مسلمانوں کو کسی بھی طرح کے خوف اورانتشارمیں مبتلانہیں ہوناچاہئے، ملک میں جب تک انصاف پسند لوگ باقی ہیں ان کوساتھ لے کرجمعیۃعلماء ہند ان طاقتوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے گی، جوملک کے اتحاد اورسالمیت کے لئے نہ صرف ایک بڑاخطرہ ہیں بلکہ سماج کوتعصب کی بنیاد پرتقسیم کرنے کے درپے ہیں۔ انہوں نے اخیرمیں کہا کہ اس ملک کے خمیرمیں ہزاروں برس سے نفرت نہیں محبت شامل ہے کچھ عرصہ کے لئے نفرت کوکامیاب ضرورکہا جاسکتا ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ آخری اورحتمی فتح محبت کی ہونی ہے۔

بھارت ایکسپریس اردو۔



بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔

Also Read