نئی دہلی: جماعت اسلامی ہند کی جانب سے منعقدہ پریس کانفرنس میں جماعت کے نائب امیر پروفیسر سلیم انجینئر نے کسانوں کے احتجاج، مطالبات اور حکومت کے رویے پر بات کی۔ انہوں نے مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسرائیلی حکومت کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ چلائے جانے کا مطالبہ کیا۔ کانفرنس میں نائب امیر جماعت ملک معتصم خاں نے مسلم پرسنل لا میں آسام اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کی مداخلت اور مسلمانوں کو پریشان کرنے کے بہانے تلاش کئے جانے پر روشنی ڈالی۔ جماعت کی نیشنل سکریٹری محترمہ رحمت النساء نے حراست میں عصمت دری کی حیران کن تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘نے جو اعدادو شمار پیش کیا ہے، اس سے دل کو شدید صدمہ پہنچا ہے ۔اس موقع پر جماعت کے نیشنل اسسٹنٹ سکریٹری انعام الرحمن نے دہلی و ملک کے دیگر حصوں میں مساجد و عبادت گاہوں کو نشانہ بنائے جانے کی تفصیلات پیش کی۔ کانفرنس میں ذیل کے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی:
مسلم پرسنل لا میں آسام اور اتراکھنڈ کی مداخلت
جماعت اسلامی ہند، مسلم شادیوں اور طلاق رجسٹریشن ایکٹ 1935 کو آسام سرکار کی طرف سے منسوخ کرنے کے فیصلے پر اپنی تشویش کا اظہار کرتی ہے۔ فی الحال ریاست میں مسلم شادیوں اور طلاقوں کے لئے مذکورہ ایکٹ کے تحت رجسٹریشن کا عمل حکومت کے مجاز قاضیوں ( مسلم علماء) کے ذریعہ انجام پاتا ہے ، لیکن اب آسام کے مسلمانوں کو 1954 کے ’اسپیشل میرج ایکٹ ‘کے تحت اپنی شادیاں درج کرانی ہوں گی۔ یہ فیصلہ نہ صرف آئین کی روح کے خلاف ہے بلکہ اسلاموفوبک رویے کی طرف ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ گرچہ آسامی حکومت کہتی ہے کہ اس اقدام کا مقصد چائلڈ میریج ( بچوں کی شادیوں) کو روکنا ہے، لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا اصل مقصد ووٹ بینک کی سیاست اور عام انتخابات سے قبل مسلم مخالف سرگرمیاں دکھا کر لوگوں کو پولرائز کرنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام سے مسلم شادیوں کے ضابطے اور ڈوکومنٹیشن میں دشواریاں ہوسکتی ہیں اور مسلمان شادیوں کو رجسٹر کرانے میں جھجک محسوس کریں گے۔ جبکہ شادیاں رجسٹرڈ نہ ہونے کی صورت میں عورتوں کو علاحدگی یا طلاق کی صورت میں ازدواجی حقوق اور سماجی سیکورٹی کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
جماعت اسلامی ہند، اتراکھنڈ حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ ( یو سی سی ) کے نفاذ کی مخالفت کرتی ہے۔ اس فیصلے کی رو سے ہر مذہب کے الگ الگ پرسنل لا کی جگہ پر ’ یو سی سی‘ پرسنل لا کا ایک ایسا سیٹ پیش کرے گا جو مذہب کی پرواہ کئے بغیر ہر شہری پر لاگو ہوگا۔ تمام مذاہب کی لڑکیوں کی شادی کے لئے یکساں عمر، مردوں اور عورتوں کو وراثت کے مساوی حقوق سمیت ’لیو ان ریلیشن شپ‘ کا رجسٹریشن لازمی ہوگا۔ جماعت کا خیال ہے کہ گرچہ ’یو سی سی‘ کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل 44 میں ریاستی پالیسی کے ہدایتی اصولوں کے طور پر کیا گیا ہے لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ آئین بنانے والوں نے اسے حکومت کی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا ( یعنی ’یو سی سی‘ کا نفاذ عوام کی مرضی پر ہونا چاہئے) ۔ حکومت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی بھی مذہبی برادری پر بغیر کسی مشاورت کے یکطرفہ فیصلہ تھوپ دے، بالخصوص جب اس میں مذہبی امور شامل ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آسام اور اتراکھنڈ میں ہونے والے یہ اقدامات ملک میں بڑھتے ہوئے اس رجحان کا حصہ ہیں جس میں نفرت انگیز تقاریر اور مسلم برادری کو نقصان و اذیت پہنچانے والے فیصلوں کو بعض وزراء اعلیٰ اور سیاست داں اپنے سیاسی عروج کا آلہ سمجھتے ہیں۔ یہ رجحان ہماری جمہوریت کے لئے نقصان دہ ہے۔ ملک کے تمام انصاف پسند شہریوں کو اس کی مخالفت کرنی چاہئے۔
کسانوں کے مطالبات:
جماعت اسلامی ہند، حکومت ہند سے ’ایم ایس پی‘ ( زرعی پیداوار کے لئے کم از کم امدادی قیمت ) کے لئے احتجاج کرنے والے کسانوں کے مطالبے کو ماننے کی اپیل کرتی ہے۔ وہ ’ایم ایس پی‘ کے لئے قانونی ضمانت اور اس کے دائرے میں تمام فصلوں کو شامل کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں نہ کہ چند منتخب فصلوں کو ۔ ان کا یہ مطالبہ بھی ہے کہ ’ایم ایس پی‘ کو سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق ہونا چاہئے جس سے امدادی قیمت میں اضافہ ہوتا ہے، جبکہ مارکیٹ کے حالات پر مبنی قیمت طے کرنے کے موجودہ طریقہ کار سے بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور اس سے کسانوں کا نقصان ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ وسائل کی کمی، آب و ہوا سے متعلق مسائل، گرتی ہوئی آبی سطح اور کسانوں کے مالی سیکورٹی کو متاثر کرنے والے سماجی و اقتصادی مسائل کو حل کرے۔ جماعت احتجاج کرنے والے کسانوں کے ساتھ پولیس کے سخت رویے کی مذمت اور آنسو گیس کے گولے داغے جانے کی وجہ سے دو کسانوں کی موت پر افسوس کا اظہار کرتی ہے۔ احتجاج کرنا کسانوں کا جمہوری حق ہے، ان کے خلاف آنسو گیس کا استعمال ناقابل قبول ہے۔ جماعت احتجاج کرنے والے کسانوں کے پاسپورٹ اور ویزے کی منسوخی کی حالیہ پالیسی کی بھی مذمت کرتی ہے۔ توقع ہے کہ حکومت مذاکرات کے دوران ضد اور ہٹ دھرمی کے رویے کو ترک کرکے دیرپا حل نکالنے کی کوشش کرے گی۔
اقدارپرمبنی سیاست کی ضرورت
ملک میں اقدار پر مبنی سیاست کی کمزور ہوتی صورت حال پر جماعت اسلامی ہند کو سخت تشویش لاحق ہے۔ حالیہ راجیہ سبھا انتخابات ، بڑے پیمانے پر ایم ایل ایز کی طرف سے کراس ووٹنگ سے متاثر ہوئے تھے۔ ایسی اطلاعات اور الزامات ہیں کہ ہماچل پردیش میں راجیہ سبھا انتخاب کے دوران ایم ایل ایز کو اغوا کر لیا گیا تھا اور انہیں پڑوسی ریاست کی پولیس کی نگرانی میں ’سی آر پی ایف‘ کی گاڑیوں میں محفوظ مقامات پر لے جایا گیا۔ سیاسی انحراف اور دلبدل کا رویہ اب ایک عام سی بات ہے، جس سے عوام کا اپنے منتخب نمائندوں پر کئے گئے اعتماد کو چوٹ پہنچتی ہے اور یہ اخلاقیات کے بھی خلاف ہے۔ ایم ایل اے کو لالچ دیا جاتا ہے اور بعض اوقات برسراقتدار پارٹی کو گرانے کے لئے ان کی وفاداریاں خرید لی جاتی ہیں ، جیسا کہ 2022 میں مہاراشٹر میں اور حال ہی میں بہار میں دیکھا گیا۔ جماعت اسلامی ہند کا ماننا ہے کہ صرف اقدار پر مبنی سیاست ہی اس ملک کو مضبوط اور ترقی کی راہ پر گامزن کرسکتی ہے۔ اس سے ملک میں ہم آہنگی، انصاف اور مساوات کے علاوہ آئین میں درج اقدار کو بھی تقویت ملے گی۔ ہمیں انتخابات میں پیسے کا بے جا استعمال، دلبدل کا رویہ اور کراس ووٹنگ پر قدغن لگانا چاہئے تاکہ موقع پرست سیاست دانوں کی حوصلہ شکنی ہو، جن کی وجہ سے ہماری جمہوری اقدار کمزور ہورہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت کی انتخابی پالیسی میں لوگوں کو یہ بتانا شامل ہے کہ وہ صرف ایسے امیدواروں کو ہی ووٹ دیں جن کا کردار اچھا ہو، معاشرے میں ان کا اچھا امیج ہو اور جن کا کوئی مجرمانہ یا فرقہ وارانہ پس منظر نہ ہو۔ اگر ہم اپنی جمہوریت کو بچانا چاہتے ہیں تو موجودہ حالات میں اقدار پر مبنی سیاست کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی۔
حراست میں عصمت دری کی تعداد حیران کن
جماعت اسلامی ہند حراستی عصمت دری کی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتی ہے جیسا کہ تازہ ترین ’ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو‘ ( این سی آر بی ) کے اعدادو شمار میں انکشاف کیا گیا ہے۔ ’این سی آر بی‘ کے اعدادوشمار کے مطابق 2017 تا 2022، حراست میں عصمت دری کے 270 سے زیادہ واقعات ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے مجرمین شامل ہیں ، جن میں پولیس اہلکار، سرکاری ملازمین، مسلح افواج کے ارکان کے ساتھ ساتھ جیلوں، ریمانڈ ہومز اور اسپتال کے عملہ شامل ہیں۔ ان عہدوں پر فائز افراد کا اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے عورت کے ساتھ زیادتی کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ اس کی روک تھام کے لئے مضبوط قانونی ڈھانچہ اور ادارہ جاتی اصلاحات کی فوری ضرورت ہے۔ حکومت کو ان مسائل کو جامع انداز میں حل کرنے کے لئے فوری ایکشن لینا چاہئے۔ اس منفی سماجی طرز عمل میں تبدیلی کو یقینی بنانے کے لئے قانونی اصلاحات ، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بہتر تربیت اور جوابدہی کے لئے مضبوط میکانزم کی ضرورت ہے۔ جماعت کا خیال ہے کہ حراستی عصمت دری کی بنیادی وجوہ اور نتائج سے نمٹنے کے لئے ایک جامع نقطہ نظر ضروری ہے۔ لوگوں کو جب تک ’خوف خدا‘ اور ’آخرت میں باز پرس‘ کی اہمیت نہیں سمجھایا جائے گا ، تب تک خواتین کے جنسی استحصال کو روکا نہیں جا سکتا ۔ ہمیں معاشرے کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی پر بھرپور توجہ دینی چاہئے۔ اس کا آغاز کم عمری سے ہی ہوجانا چاہئے۔ اسکولوں اور تربیتی اداروں میں اخلاقی تعلیم کو نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ عصمت دری کرنے والوں کے لئے سخت قوانین، تیز رفتار ٹرائل اور مثالی سزا کے تعین کے ساتھ ہی معاشرے کی اخلاقی اصلاح پر بھی زور دیا جانا چاہئے۔
مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کرنا
وزارت برائے اقلیتی امور کے حکم پر مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کو بند کئے جانے پر جماعت اسلامی ہند اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔ فاؤنڈیشن کے پاس فنڈز کی کل دستیابی 30 نومبر 2023 تک 403.55 کروڑ روپے کی لیابلیٹی کے ساتھ 1073.26 کروڑ روپے، مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے پاس 669.71 کروڑ روپے دستیاب ہیں۔ وزارت برائے اقلیتی امور نے اب اس سرپلس کو ہندوستان کے ’ کنسولیڈیٹیڈ فنڈ ‘ میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ جماعت کا خیال ہے کہ یہ اقدام ہندوستان میں مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے ایک شدید دھچکا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے نظر انداز کئے جانے کی وجہ سے ہندوستانی مسلم کمیونٹی اقتصادی ترقی اور اعلیٰ تعلیم کے میدان میں پیچھے دھکیلی جارہی ہے۔ جبکہ بے شمار ایسے سرکاری اعدادو شمار موجود ہیں جو بتاتے ہیں کہ مسلمان تعلیمی و اقتصادی طور پر پیچھے ہیں۔ اس سلسلے میں سچر کمیٹی کی رپورٹ اور محمود الرحمن کمیٹی کی رپورٹ نے اس کمیونٹی کی بہتری کے لئے مثبت کارروائی ( ریزرویشن) کی سفارش کی ہے۔ اگر حکومت مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن جیسی اسکیموں کو بند کرنے کا سلسلہ جاری رکھتی ہے تو یہ اقلیتی ترقی کے لئے انتہائی ضرر رساں ہوگا جبکہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیمی اعتبار سے پسماندہ طبقے کے لئے مثبت پیش رفت کرے۔
غزہ کی صورت حال
جماعت اسلامی ہند کوغزہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال پرگہری تشویش ہے۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ مزید یرغمالیوں کی رہائی کے ساتھ جلد ہی عارضی جنگ بندی ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اب تک 30 ہزار فلسطینی شہید اور70 ہزارزخمی ہوچکے ہیں جن میں خواتین اوربچے شامل ہیں۔ اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ کے 439،000 یعنی تقریبا 70 فیصد مکانوں کو تباہ یا زبردست نقصان پہنچا ہے۔ غزہ کے 2.2 ملین باشندوں میں سے تقریبا 85 فیصد بے گھر ہوچکے ہیں۔ ’بین الاقوامی عدالت انصاف‘ کو ثبوت ملے ہیں کہ اسرائیل نے غزہ میں نسل کشی ‘ کا ارتکاب کیا ہے۔ وہاں کے زیادہ تراسپتالوں کو شدید نقصان پہنچا یا مکمل طورپرتباہ کردیا گیا۔ فلسطینیوں کی بڑی تعداد عارضی کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہے جہاں انہیں خوراک، پانی اور ادویات کی قلت کا سامنا ہے۔ صفائی کی سہولیات کا فقدان ہے اورلوگ منجمد کردینے والے موسم کو برداشت کررہے ہیں۔ یہ خوفناک صورت حال فاقہ کشی اوربیماریوں کے تیزی سے پھیلنے کا سبب بن رہی ہے۔ اس وقت اسرائیلی یرغمالیوں اوراسرائیلی جیلوں میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ تک انسانی امداد پہنچانے کی اجازت دینا بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ جماعت خطے میں فوری اورمستقل جنگ بندی کے نفاذ کا مطالبہ کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کرتی ہے کہ اسرائیلی جارحانہ کارروائیوں کو بخشا نہیں جانا چاہئے ، اس کی سیاسی اور عسکری قیادت پر اقوام متحدہ اور عالمی برادری کی طرف سے مختلف جنگی جرائم کا مقدمہ چلایا جانا چاہئے ۔ اس سلسلے میں حکومت ہند خطے میں امن قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
بھارت ایکسپریس۔