Bharat Express

Iltija Mufti on talks with Pakistan: واجپئی کریں تو حلال اور ہم کریں تو حرام،یہ ٹھیک نہیں ہے،پاکستان سے بات چیت ضروری ہے:التجا مفتی

التجا نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں لوگوں کو کچھ ریلیف دے سکوں اور ان کی آنکھوں میں کچھ احترام دیکھ سکوں۔ ووٹ بنک کے ذریعے ووٹ دینا آسان ہے لیکن جب کوئی لیڈر یہاں دفن ہوتا ہے تو اس کی ساکھ بھی دفن ہو جاتی ہے۔

التجا مفتی، جو جموں و کشمیر میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی امیدوار کے طور پر بجبہاڑہ سے آئندہ اسمبلی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں، نے ایک انٹرویو کے دوران کہاکہ، ‘یہاں بولنے کی آزادی نہیں ہے۔ جہاں کبھی دہشت گردی نہیں تھی – ڈوڈہ، راجوری، پونچھ، جموں.یہاں دہشت گردی کا کھیل جاری ہے.. ہمارے بہت سے شہید ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ  دکان کھلی ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ سب کچھ ٹھیک ہے۔

کیا  مکمل ریاست واپس آئے گی جیسا کہ وزیر اعظم اور امیت شاہ کہہ رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے التجا مفتی نے کہا کہ ‘وہ لوگوں کے کھاتوں میں 10 لاکھ روپے بھی ڈالنے والے تھے، ہم دوربین سے تلاش کر رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں لگتا ہے کہ کشمیر کو کنٹرول کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے۔ ای ڈی اور این آئی اے کے چھاپے مار کر انہوں نے ایل جی کو وائسرائے کی طرح ہم پر لگا دیا ہے، وہ ریاست کا درجہ کیوں واپس دینا چاہیں گے؟ مجھے اس سوال پر غصہ آتا ہے کہ کیا ہم کشمیری بھکاری ہیں؟ ہم وہی رکھیں گے جو ہمارا ہے، جو ہمیں آئین ہند نے دیا ہے۔

پاکستان  سےتعلقات پر پی ڈی پی کے نرم موقف کے بارے میں التجا مفتی نے کہا، ‘جب میں نے اپنا پاسپورٹ چیک کیا تو وہ ہندوستانی تھا۔ تو میں اس کی(پاکستان) طرف سے اس سوال کا جواب کیوں دوں؟ میں پاکستانی ترجمان نہیں ہوں۔ محبوبہ جی نے ہمیشہ پاکستان کے ساتھ بات چیت کی وکالت کی جو واجپائی جی نے بھی کی۔ تو اگر واجپائی جی کرتے ہیں تو حلال ہے، اگر ہم کرتے ہیں تو حرام ہے… یہ ٹھیک نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیک ہولڈر ہے، دہلی میں بیٹھے این ڈی اےسرکار اسے مانتی ہے یا نہیں، یہ ان کا معاملہ ہے۔

جموں و کشمیر میں سیاست آگ کا دریا ہے

 التجا نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ میں لوگوں کو کچھ ریلیف دے سکوں اور ان کی آنکھوں میں کچھ احترام دیکھ سکوں۔ ووٹ بنک کے ذریعے ووٹ دینا آسان ہے لیکن جب کوئی لیڈر یہاں دفن ہوتا ہے تو اس کی ساکھ بھی دفن ہو جاتی ہے۔ کشمیر کی سیاست میں شامل ہونا مجھے غالب کا ایک شعر یاد دلاتا ہے کہ یہ عشق نہیں آساں ،ایک آگ کا دریا ہے، مجھے لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کی سیاست آگ کا دریا ہے، یہاں سب کچھ بھسم ہو جاتا ہے۔ میرا مقصد یہ ہوگا کہ لوگ مجھے سمجھیں ،غلط نہ سمجھیں۔ اگر وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو یہ بہت بڑی بات ہوگی، لیکن میرے لیے احترام کا معاملہ ہے۔

بھارت ایکسپریس۔