Bharat Express

Hearing on Triple Talaq: ایک سانس میں تین طلاق بول کر آپ طلاق نہیں دے سکتے،کوئی وکیل طلاق ثلاثہ کے جواز کا دفاع نہیں کر سکتا:چیف جسٹس

کیس کی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایسی تمام درخواستوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ صرف ایک بیان نہیں ہے بلکہ اس سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ،آپ  ایک ہی لمحے بعد کہہ دیں کہ آپ میری بیوی نہیں ہیں۔

تین طلاق کا مسئلہ ایک بار پھر بحث میں آیا ہے۔ بدھ کو سپریم کورٹ میں اس معاملے پر گرما گرم بحث ہوئی۔ دراصل، یہ بحث اس عرضی کو لے کر ہوئی جس میں تین طلاق سے متعلق مرکزی حکومت کے قانون کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اس بحث کے دوران سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت سے اس قانون سے متعلق مکمل تفصیلات طلب کی ہیں۔ اس کے علاوہ ان سے یہ بھی بتانے کو کہا گیا ہے کہ تین طلاق کو لے کر ملک بھر میں کتنی ایف آئی آر اور چارج شیٹ داخل کی گئی ہیں۔ اس عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ہم ڈیٹا کی جانچ کریں گے۔ کوئی وکیل طلاق ثلاثہ کے جواز کا دفاع نہیں کر سکتا۔ عدالت نے یہ بھی کہاکہ  ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا اسے مجرم بنایا جا سکتا ہے؟ خاص طور پر اس وقت جب اس  عمل  پر پابندی لگا دی گئی ہو۔ عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ کوئی بھی کسی کو ایک ہی بار میں تین بار طلاق دے کر طلاق نہیں دے سکتا۔ اب اس معاملے کی اگلی سماعت 17 مارچ کے بعد ہوگی۔ عدالت نے درخواست گزاروں سے تین ہفتوں میں تحریری جواب داخل کرنے کو بھی کہا ہے۔

اس کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) سنجیو کھنہ نے کہا کہ میاں بیوی کا رشتہ قائم رہتا ہے، یہ ختم نہیں ہوتا، عمل  ہی جرم ہے ۔ سکھ، جین، بدھ وغیرہ ہندو میرج ایکٹ کے تحت آتے ہیں۔ہمارے پاس قانونی طریقے ہیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ کوئی وکیل طلاق ثلاثہ کی حمایت کرے گا لیکن ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کیا اسے مجرم قرار دیا جا سکتا ہے ،جبکہ اس پر پابندی عائد ہےاور ایک ہی بار میں تین بار طلاق کہہ کر طلاق نہیں ہوسکتا۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے درخواست کی مخالفت کی۔

کیس کی سماعت کے دوران سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایسی تمام درخواستوں کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ طلاق ثلاثہ صرف ایک بیان نہیں ہے بلکہ اس سے رشتہ ٹوٹ جاتا ہے ،آپ  ایک ہی لمحے بعد کہہ دیں کہ آپ میری بیوی نہیں ہیں۔ یہ ایک نادر آئینی ترمیم ہے۔آپ کو بتا دیں کہ سپریم کورٹ اس وقت تین طلاق پر مرکزی حکومت کے قانون کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر سماعت کر رہی ہے، اس قانون کے ذریعے حکومت نے تین طلاق کو جرم قرار دیا ہے اور اس کے لیے تین سال کی سزا کا انتظام کیا ہے، جسے لازمی قرار دیا گیا ہے۔ مختلف مسلم تنظیموں نے اسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب داخل کرکے اس قانون کا دفاع کیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دینے کے باوجود اس پر پابندی نہیں عائد نہیں کی جاسکی تھی۔ عدالت کے فیصلے کے بعد بھی ملک بھر میں تین طلاق کے سینکڑوں معاملے سامنے آئے ہیں، ایسے میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے ایک قانون کی ضرورت تھی۔ اس نے اسے روکنے میں مدد کی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read