گھوسی ضمنی اسمبلی انتخابات کے لئے منگل کے روز ہوئی ووٹنگ میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس (این ڈی اے) بنام انڈیا اتحاد کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوا ہے۔ حالانکہ بی جے پی اورسماجوادی پارٹی کی تمام کوششوں کے باوجود ووٹنگ 51 فیصد تک پہنچا۔ بی جے پی کے حامی مانے جانے والے نینیا چوہان، راج بھر، نشاد اورکرمی ووٹروں نے بھی ووٹنگ میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔
وہیں سماجوادی کے روایتی ووٹ بینک مسلم اور یادو سماج کے ساتھ سماجوادی پارٹی کے امیدوار سدھاکرسنگھ کی برادری کے ٹھاکررائے دہندگان نے بھی پورے جوش سے ووٹنگ کرکے مقابلے کو نہ صرف دلچسپ بنایا بلکہ سخت مقابلہ بنا دیا۔ بہرحال یہ مانا جا رہا ہے کہ جو بھی پارٹی دلت رائے دہندگان میں سیندھ لگانے میں جتنا کامیاب رہے گا، بازی اس کے ہاتھ لگے گی۔
ضمنی الیکشن کو لے کراپوزیشن کی طرف سے خدشہ ظاہر کیا جار ہا تھا کہ ان سے جڑے مسلم اوریادو رائے دہندگان کوووٹنگ نہیں کرنے دیا گیا ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے برسراقتدارپارٹی پر سرکاری مشینری کا غلط استعمال کرکے ان کے رائے دہندگان کو خوفزدہ کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ تاہم منگل کے روز ہوئی ووٹنگ میں مسلم، یادو اور ٹھاکراکثریتی علاقوں میں ووٹنگ مراکز پر بھاری بھیڑ دیکھنے کوملی۔ ابتدائی دورمیں شناختی کارڈ کے نام پررائے دہندگان کو پریشان کی شکایت ملی، لیکن اس کے بعد ووٹنگ معمول کے مطابق چلتا رہا۔
حالانکہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ووٹنگ فیصد تھوڑا کم رہا۔ سماجوادی کے ووٹ بینک سے جڑی دیگرذات پات نے جم کرووٹنگ کی۔ اعظم گڑھ اوررامپور لوک سبھا ضمنی الیکشن یا رامپوراسمبلی ضمنی انتخاب جیسی صورتحال نہیں رہنے سے سماجوادی پارٹی مقابلے میں مضبوطی سے بنی رہی۔ اب جیت کس پارٹی کوملے گی، اس کا پتہ تو 8 ستمبر کو چلے گا، لیکن ووٹنگ کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کے درمیان سخت مقابلہ ہوگا۔