Bharat Express DD Free Dish

Protection Waqf Land: ملک میں وقف املاک کے تحفظ اورخطرات سے نمٹنے کے لئے اے پی سی آراورآئی ایم سی آرکا مشترکہ اجلاس، مختلف سیاسی پارٹیوں کے سرکردہ لیڈران نے اٹھایا سوال

انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں”وقف اراضی کی حفاظت” پر منعقدہ عوامی اجلاس میں ہندوستان بھر میں وقف املاک کو بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لئے سیاسی رہنماؤں، شہری حقوق کے کارکنوں، قانونی ماہرین، ماہرین تعلیم، اورمتعلقہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔

نئی دہلی: انڈین مسلم فارسول رائٹس (آئی ایم سی آر) اورایسوسی ایشن فارپروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کے زیراہتمام انڈیا اسلامک کلچرل سینٹرمیں “وقف اراضی کی حفاظت” پرایک عوامی اجلاس کا انعقاد کیا گیا۔  اس اجلاس نے ہندوستان بھرمیں وقف املاک کو بڑھتے ہوئے خطرات سے نمٹنے کے لئے سیاسی رہنماؤں، شہری حقوق کے کارکنوں، قانونی ماہرین، ماہرین تعلیم، اورمتعلقہ شہریوں کی ایک بڑی تعداد کے ایک ہی صف میں لاکھڑا کیا۔ اس اجلاس کوملک کی اہم شخصیات نے خطاب کیا، جس میں سیاسی لیڈران جیسے نیشنل کانفرنس کے سری نگرسے منتخب رکن پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ مہدی، معروف صحافی آشوتوش کمار، ایس پی رکن پارلیمنٹ اودھیش پرساد سنگھ، رکن پارلیمنٹ چودھری اقرا حسن، کانگریس رکن پارلیمنٹ ڈاکٹرمحمد جاوید، آئی ایم سی آرکے نائب صدراورسابق رکن پارلیمنٹ دانش علی، میجرجنرل ریٹائرڈ جاوید اقبال، رکن پارلیمنٹ روچی ویرا، آئی ایم سی آرکے چیئرمین اورسابق رکن پارلیمنٹ محمد ادیب، سابق وزیراتر پردیش نسیم الدین صدیقی، عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ، رکن پارلیمنٹ طارق انوراورضیاء الرحمن برق، معروف سماجی کارکن پروفیسررتن لال، رکن پارلیمنٹ پروفیسرمنوج جھا، پروفیسروی کے ترپاٹھی اورروی رائے بطورخاص شریک تھے۔

اجلاس میں طلبہ تنظیموں کے رہنما اورکارکنان بھی شامل رہے۔ ان کے علاوہ پلاننگ کمیشن کی سابق سینئررکن سیدہ حمید، معروف صحافی اورسماجی کارکن جان دیال، جماعت اسلامی ہند کے نائب صدرملک معتصم خان، سماجی کارکن نتیش جھا اورطلبہ تنظیم ایس آئی اوطلحہ منان شامل تھے۔ اجلاس کی نظامت ندیم خان نے کی۔ تقریب میں بڑی تعداد میں سامعین نے شرکت کی۔ مقررین نے بڑھتی ہوئی تجاوزات،غیر قانونی قبضوں اورانتظامی غفلت پرگہری تشویش کا اظہارکیا، جس کی وجہ سے ہزاروں وقف اراضی غیرمحفوظ ہوچکی ہے۔  بات چیت کا مرکزان زمینوں کی حفاظت کے لئے قانونی تحفظات اورکمیونٹی کومتحرک کرنے کی فوری ضرورت پرتھا، جومسلم کمیونٹی کے لئے مذہبی، تعلیمی اورامدادی سرگرمیوں کوانجام دیتی ہے۔

مسلمانوں کی شناخت، عقیدے اورحقوق پرسیدھا حملہ ہے نیا وقف قانون: مقررین

وقف قانون کواراضی اوراس کے انتظامی امورکے لئے لایا گیا تھا، لیکن مقررین نے کہا کہ یہ قانون مسلمانوں کی شناخت، عقیدے اورحقوق پرسیدھا حملہ قراردیا۔ میجر جنرل (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے کہا کہ “یہ شناخت اوروجود کا سوال ہے۔ آج ہمیں اسی لیے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ہم سیاسی طورپرنظراندازکئے جا رہے ہیں اورہمیں غیرضروری سمجھا جا رہا ہے۔ جے این یوطلبہ یونین کے صدرنتیش جھا نے کہا کہ “یہ حکومت ہرچیزکوکنٹرول کرنے کی کوشش کررہی ہے، ہم کس سے شادی کرتے ہیں، ہم کیا کھاتے ہیں اوریہ قانون ملک کی سب سے بڑی اقلیت کومزید پسماندگی کی طرف دھکیلنے والا قانون ہے۔

حقیقی مالک ہی کرسکتا ہے وقف: جماعت اسلامی

جماعت اسلامی ہند کے نائب صدر ملک معتصم خان نے کہا، “اسلام میں صرف وہی وقف کرسکتا ہے جس کا وہ حقیقی مالک ہواورایک بار وہ کرلے تو وہ زمین اب اس کی نہیں رہی بلکہ کمیونٹی کے فائدے کے لئے ہے۔ یہ وقف املاک شاہی تحفہ نہیں، یہ تاجروں، کارکنوں اورعام مسلمانوں کی سخاوت کا مظہرہے۔ پروفیسروی کے ترپاٹھی نے کہا، “حکومت کا کہنا ہے کہ وقف اسلام کا مذہبی معاملہ نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ مذہب صرف صحیفہ نہیں ہے، حکومت وقف کی املاک پرقبضے کررہی ہے۔” سنبھل سے سماجوادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ ضیاء الرحمن برق نے اس بات پرزوردیا کہ یہ قانون ایک گہری سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم اس بل کی مخالفت اس لئے نہیں کرتے کہ یہ بی جے پی کی طرف سے ہے، بلکہ اس میں خلوص کی کمی ہے۔ یہ آراضی حکومتوں نے نہیں دی تھی، یہ مسلمانوں کے ذریعے عطیہ کی گئی زمینیں ہیں۔ جب سرکار یہ کہتی ہے کہ مسجدیں اورمدارس اس سے اچھوتے ہیں، توان سے پوچھیں کہ سنبھل میں ہماری مساجد پرکارروائی کیوں ہورہی ہے؟ ان کے الفاظ اوران کے ارادوں میں واضح تضاد ہے۔

سیکولرازم کی وجہ سے وقف قانون کے خلاف 232 ووٹ پڑے: اقراحسن

کیرانہ کی رکن پارلیمنٹ چودھری اقرا حسن نے بل کے نچلی سطح پرپڑنے والے اثرات کی طرف توجہ دلائی۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون سب سے پہلے دیہاتوں اوراضلاع کو متاثرکرے گا، جہاں لوگ سب سے زیادہ لاعلم ہیں۔ ہمیں تعلیم، قانونی امداد کو متحرک کرنا، اورخود کو متحرک سیاست کا حصہ بننا ہوگا۔ سماجی کارکن جان دیال نے کہا کہ “ایک کمیونٹی کونشانہ بنانے والے قوانین کواکثردوسروں کونشانہ بنانے کے لئے کم ازکم تبدیلیوں کے ساتھ دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں وقف کا پیمانہ، جوچارلاکھ سے زیادہ گاؤں میں ہے، خود مسلم کمیونٹی کوبھی پوری طرح سے سمجھ نہیں آیا ہے۔” یہ مزاحمت صرف مسلمانوں کے لئے نہیں ہے۔ “یہ لڑائی صرف وقف کے بارے میں نہیں ہے، یہ ہر کمیونٹی کے ان لوگوں کی ہے، جوعطیہ دینے، اظہارکرنے اورآزادانہ طورپرکام کرنے والے ان تمام لوگوں کی ہے۔ اقراء حسن نے کہا کہ اس بل کے خلاف 232 ووٹ پڑنا، جن میں زیادہ ترغیرمسلم ہیں، یہ ثابت کرتا ہے کہ اس ملک میں سیکولرازم اب بھی سانس لے رہا ہے۔

سنجے سنگھ اورمحمد ادیب نے کیا کہا؟

رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ نے کہا کہ سچرکمیٹی نے خود حکومت کے ذریعے وقف کی زمین پرقبضے کے 300 سے زیادہ معاملے تسلیم کئے تھے۔ سابق ایم پی محمد ادیب نے قانونی مزاحمت اورانتخابی جوابدہی دونوں کا ذکرکیا۔ انہوں نے کہا کہ “ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے، کیا ہم واقعی ایک سیکولر ملک ہیں؟ اگرایسا نہیں ہے، تو ہمارا جواب بیلٹ باکس میں ہوگا۔ آئندہ کچھ ماہ بعد بہار میں انتخابات ہونے ہیں، بہار کے لوگ ہماری بات سنیں گے۔” اجلاس کا اختتام اجتماعی قرارداد کے ساتھ کیا گیا تاکہ قانونی، سیاسی اورسماجی طریقوں سے وقف اراضی کے انصاف، احتساب اورتحفظ کے لیے جدوجہد جاری رکھی جائے۔ اے پی سی آر، آئی ایم سی آراورشرکاء نے آئندہ مہینوں میں قابل عمل اقدامات اورمزید کمیونٹی کے کاموں کو انجام دینے کا عہد کیا۔



بھارت ایکسپریس اردو، ہندوستان میں اردوکی بڑی نیوزویب سائٹس میں سے ایک ہے۔ آپ قومی، بین الاقوامی، علاقائی، اسپورٹس اور انٹرٹینمنٹ سے متعلق تازہ ترین خبروں اورعمدہ مواد کے لئے ہماری ویب سائٹ دیکھ سکتے ہیں۔ ویب سائٹ کی تمام خبریں فیس بک اورایکس (ٹوئٹر) پربھی شیئر کی جاتی ہیں۔ برائے مہربانی فیس بک (bharatexpressurdu@) اورایکس (bharatxpresurdu@) پرہمیں فالواورلائک کریں۔ بھارت ایکسپریس اردو یوٹیوب پربھی موجود ہے۔ آپ ہمارا یوٹیوب چینل (bharatexpressurdu@) سبسکرائب، لائک اور شیئر کرسکتے ہیں۔

Also Read