One Nation, One Election: A Reform for India’s Democracy:ہندوستان دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے، جس میں 1.3 بلین سے زیادہ افراد ، ایک متنوع اور تکثیری معاشرہ ہے۔ ہندوستان کا جمہوری نظام وفاقیت کے اصول پر مبنی ہے، جو ریاستوں کو خود مختاری اور طاقت دیتا ہے کہ وہ اپنے معاملات خود سنبھال سکیں، جب کہ مرکز قومی اہمیت کے معاملات کو سنبھالتا ہے۔ ہندوستان پارلیمانی طرز حکومت کی بھی پیروی کرتا ہے، جہاں ایگزیکٹو مقننہ کے سامنے جوابدہ ہے، اور عوام اپنے نمائندوں کو وقتاً فوقتاً انتخابات کے ذریعے منتخب کرتے ہیں۔
تاہم، ہندوستان کی جمہوریت کو بھی بہت سے چیلنجوں اور مسائل کا سامنا ہے، جیسے بدعنوانی، جرائم، پاپولزم، پالیسی دقتیں، گورننس کا خسارہ، اور انتخابی بدعنوانی۔ ان مسائل کی ایک بڑی وجہ ہندوستان میں مختلف سطحوں اور اوقات میں ہونے والے متواتر اور مرحلہ وار انتخابات ہیں۔ ہندوستان میں لوک سبھا (پارلیمنٹ کا ایوان زیریں) اور ریاستی اسمبلیوں دونوں کے لیے پانچ سال کی مدت ہوتی ہے، لیکن مختلف وجوہات جیسے تحلیل، تحریک عدم اعتماد، انحراف، یا صدر راج کے نفاذ کی وجہ سے مدت نہیں پوری ہوپاتی ۔ نتیجے کے طور پر، بھارت تقریباً ہر سال لوک سبھا یا کچھ ریاستی اسمبلیوں یا مقامی اداروں کے انتخابات کا مشاہدہ کرتا ہے۔
یہ بار بار اور مرحلہ وار انتخابات ہندوستان کی جمہوریت اور ترقی پر بہت سے منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اثرات یہ ہیں:
انتخابات پر زیادہ لاگت: سنٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر 60,000 کروڑ روپے لاگت آئی، جس سے یہ دنیا کا سب سے مہنگا الیکشن قرارپایا۔ اس رقم میں الیکشن کمیشن آف انڈیا (ECI) کے اخراجات شامل ہیں، جو کہ 10,000 کروڑ روپے تھے، اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے، جو 50,000 کروڑ روپے تھے۔ یہ عوامی پیسے اور وسائل کے برباد ہونے کا بہت بڑا ڈرین ہے جسے دیگر ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
انتظامی اور سیکورٹی فورسز پر بوجھ: متواتر انتخابات سے انتظامی اور سیکورٹی فورسز پر بھی بہت زیادہ دباؤ پڑتا ہے، جنہیں ہندوستان جیسے وسیع اور متنوع ملک میں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔ ECI کو انتخابات کے انعقاد کے لیے 10 ملین سے زیادہ اہلکاروں کو تعینات کرنا ہے، جن میں سرکاری ملازمین، پولیس افسران، نیم فوجی دستے، اور رضاکار شامل ہیں۔ سیکورٹی فورسز کو انتخابات کے دوران تشدد، دہشت گردی، نکسلزم، فرقہ پرستی اور علیحدگی پسندی جیسے مختلف چیلنجوں سے نمٹنا پڑتا ہے۔ انتظامی مشینری بھی انتخابات کے دوران حکمرانی اور خدمات کی فراہمی کے اپنے معمول کے فرائض سے ہٹ جاتی ہے۔
پالیسی میں خلل اور گورننس کا خسارہ: بار بار ہونے والے انتخابات مرکزی اور ریاستی حکومتوں دونوں کی پالیسی سازی اور نفاذ کے عمل میں بھی خلل ڈالتے ہیں۔ جب بھی انتخابات کا اعلان ہوتا ہے تو ECI ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (MCC) نافذ کرتا ہے، جو حکومت کو کسی بھی نئی اسکیم یا پروجیکٹ کا اعلان کرنے یا شروع کرنے سے روکتا ہے جو ووٹرز کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اس سے حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں کا تسلسل متاثر ہوتا ہے۔ حکومت بھی انتخابات کے دوران حکمرانی اور ترقی کے بجائے انتخابی سیاست پر زیادہ توجہ دیتی ہے۔ متواتر انتخابات سیاسی نظام میں بھی غیر یقینی اور عدم استحکام پیدا کرتے ہیں، کیونکہ حکومت اپنی اکثریت کھو سکتی ہے یا کسی بھی وقت معلق پارلیمنٹ یا اتحاد کا سامنا کر سکتی ہے۔
بدعنوانی اور سیاست کو مجرمانہ بنانا: متواتر انتخابات ہندوستان میں بدعنوانی اور سیاست کو مجرمانہ بنانے کی بھی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے بھاری رقم کی ضرورت ہوتی ہے، جو وہ اکثر غیر قانونی یا مشکوک ذرائع جیسے کہ کالا دھن، کارپوریٹ عطیات، غیر ملکی فنڈنگ یا بھتہ خوری سے اکٹھا کرتے ہیں۔ اس سے سیاست دانوں، تاجروں، مجرموں اور بیوروکریٹس کے درمیان گٹھ جوڑ پیدا ہوتا ہے، جو اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے مختلف گھپلوں، سکینڈلز اور بددیانتی میں ملوث ہوتے ہیں۔ بار بار ہونے والے انتخابات انتخابی دھوکہ دہی جیسے بوتھ پر قبضہ، ووٹر کی نقالی، دھاندلی، دھمکی، رشوت یا تشدد کے امکانات کو بھی بڑھا دیتے ہیں۔
پاپولزم اور سیاست کا پولرائزیشن: متواتر انتخابات ہندوستان میں بھی پاپولزم اور سیاست کی پولرائزیشن کو فروغ دیتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابات کے دوران ووٹروں کو راغب کرنے کے لیے غیر حقیقی وعدے کرتے ہیں یا مفت یا سبسڈی کی پیشکش کرتے ہیں۔ یہ حکومت کی طرف سے مالیاتی بے ضابطگی اور فضول خرچی کا باعث بنتا ہے۔ متواتر انتخابات قومی اور علاقائی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف برادریوں جیسے ذات، مذہب، زبان یا نسل کے درمیان بھی تفریق پیدا کرتے ہیں۔ اس سے سیاست میں فرقہ واریت، علاقائیت اور علیحدگی پسندی جنم لیتی ہے۔
ان مسائل پر قابو پانے اور ہندوستان کی جمہوریت اور ترقی کو بہتر بنانے کے لیے، وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کئی سیاسی رہنماؤں نے “ون نیشن ،ون الیکشن ” کا نظریہ پیش کیا ہے۔ اس خیال سے مراد لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں دونوں کے بیک وقت انتخابات کرانا ہے، بجائے اس کے کہ موجودہ طرز عمل کے مطابق انہیں مختلف اوقات میں کروایا جائے۔ یہ خیال سب سے پہلے لاء کمیشن نے 1999 میں اپنی 170 ویں رپورٹ میں تجویز کیا تھا، اور بعد میں 2015 میں الیکشن کمیشن، 2017 میں نیتی آیوگ اور 2018 میں پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے پرسنل، عوامی شکایات، قانون اور انصاف نے اس کی تائید کی تھی۔
“ایک قوم، ایک انتخاب” کا نظریہ ہندوستان کی جمہوریت اور ترقی کے لیے بہت سے فائدے رکھتا ہے۔ ان فوائد میں سے کچھ یہ ہیں:
انتخابات کی لاگت میں کمی: بیک وقت انتخابات سے انتخابات کی لاگت میں نمایاں کمی آئے گی، کیونکہ ECI، سیاسی پارٹیوں اور امیدواروں کے اخراجات کئی بار کے بجائے پانچ سالوں میں صرف ایک بار ہوں گے۔ نیتی آیوگ کی ایک رپورٹ کے مطابق، بیک وقت انتخابات سے ECI کے لیے 4,500 کروڑ روپے اور سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کے لیے 30,000 کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔ اس سے عوامی پیسہ اور وسائل دیگر ترقیاتی مقاصد کے لیے استعمال ہوں گے۔
انتظامی اور سیکورٹی فورسز پر بوجھ میں کمی: بیک وقت انتخابات سے انتظامی اور سیکورٹی فورسز پر بھی بوجھ کم ہو جائے گا، کیونکہ انہیں کئی بار کے بجائے پانچ سال میں صرف ایک بار انتخابات کرانا ہوں گے۔ اس سے سرکاری ملازمین، پولیس افسران، نیم فوجی دستوں، اور رضاکاروں پر دباؤ کم ہو جائے گا، جو اپنے معمول کے فرائض حکمرانی اور خدمات کی فراہمی پر توجہ مرکوز کر سکیں گے۔ سیکورٹی فورسز تشدد، دہشت گردی، نکسل ازم، فرقہ پرستی اور علیحدگی پسندی جیسے مختلف چیلنجوں سے بھی زیادہ مؤثر طریقے سے نمٹ سکیں گی۔
پالیسی کا تسلسل اور حکومتی کارکردگی: بیک وقت انتخابات مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی پالیسی کے تسلسل اور حکومتی کارکردگی کو بھی یقینی بنائیں گے۔ الیکشن کمیشن آف انڈیا کو بار بار ایم سی سی کو نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی، جس سے حکومت کو بغیر کسی رکاوٹ کے نئی اسکیموں یا منصوبوں کا اعلان کرنے یا شروع کرنے کی اجازت ہوگی۔ اس سے حکومت کی پالیسیوں اور پروگراموں کے تسلسل میں اضافہ ہوگا۔ حکومت انتخابی سیاست کی بجائے گورننس اور ترقی پر زیادہ توجہ دے سکے گی۔ بیک وقت انتخابات سے سیاسی نظام میں بھی یقین اور استحکام پیدا ہو گا، کیونکہ حکومت کی مدت پانچ سال کی مقررہ ہو گی، جس میں اپنی اکثریت کھونے یا معلق پارلیمنٹ یا کسی اتحاد کا سامنا کرنے کے خوف سے وہ آزاد ہوگی۔
بدعنوانی اور سیاسی مجرمانہ پن کو روکنا: بیک وقت انتخابات سے ہندوستان میں بدعنوانی اور سیاست کے مجرمانہ پن کو روکنے میں بھی مدد ملے گی۔ سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کو الیکشن لڑنے کے لیے کم رقم کی ضرورت ہوگی، جس سے فنڈنگ کے غیر قانونی یا مشکوک ذرائع پر ان کا انحصار کم ہوگا۔ اس سے سیاست دانوں، تاجروں، مجرموں اور بیوروکریٹس کے درمیان گٹھ جوڑ ٹوٹ جائے گا، جو مختلف گھپلوں، سکینڈلز اور بددیانتی میں ملوث ہیں۔ بیک وقت انتخابات سے انتخابی دھوکہ دہی جیسے بوتھ پر قبضہ، ووٹر کی نقالی، دھاندلی، دھمکی، رشوت یا تشدد کے امکانات بھی کم ہوں گے۔
پاپولزم میں کمی اور سیاست کی پولرائزیشن: بیک وقت انتخابات ہندوستان میں پاپولزم اور سیاست کے پولرائزیشن کو کم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوں گے۔ سیاسی جماعتیں اور امیدوار انتخابات کے دوران ووٹروں کو لبھانے کے لیے غیر حقیقی وعدے یا مفت یا سبسڈی کی پیشکش نہیں کر سکیں گے۔ یہ حکومت کی طرف سے مالیاتی نظم و ضبط اور معقول اخراجات کا باعث بنے گا۔ بیک وقت انتخابات قومی اور علاقائی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف برادریوں جیسے ذات، مذہب، زبان یا نسل کے درمیان فرق کو بھی ختم کریں گے۔ اس سے فرقہ وارانہ ہم آہنگی، قومی یکجہتی اور سیاست میں تعاون پر مبنی وفاقیت کو فروغ ملے گا۔
ون نیشن ون الیکشن کا نظریہ کوئی نیا نہیں ہے۔ ہندوستان میں 1967 تک اس کا رواج تھا، جس کے بعد مختلف وجوہات کی بنا پر لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے الگ الگ انتخابات ہونے لگے۔ اس کے بعد سے کئی کمیٹیوں اور کمیشنوں نے اس خیال کا مطالعہ کیا اور اپنی سفارشات پیش کیں۔ تاہم اس معاملے پر سیاسی جماعتوں، ماہرین یا سول سوسائٹی میں کوئی اتفاق رائے نہیں ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے اس خیال پر وسیع اور جامع مکالمہ کیا جائے۔
خلاصہ کلام
ون نیشن ،ون الیکشن کا نظریہ ہندوستان کی جمہوریت کے لیے ایک اصلاح (ریفارم)ہے جس کا مقصد اسے زیادہ موثر اور جوابدہ بنانا ہے۔ ہندوستان کی ترقی کے لیے اس کے بہت سے فوائد ہیں، جیسے لاگت، وقت اور وسائل کی بچت، پالیسی کے تسلسل اور گورننس کی کارکردگی کو یقینی بنانا، بدعنوانی اور جرائم کی روک تھام،پاپولزم اور پولرائزیشن کو کم کرنا اور قومی یکجہتی اور تعاون پر مبنی وفاقیت کو فروغ دینا۔ تاہم، اس میں کچھ چیلنجز اور خامیاں بھی ہیں، جیسے آئینی ترامیم کی ضرورت، ووٹر کے انتخاب اور آگاہی کو متاثر کرنا، اپوزیشن جماعتوں اور ان کے کردار کو کمزور کرنا، وفاقی ڈھانچے اور علاقائی تنوع کو نقصان پہنچانا اور ایک جیسی سیاسی ثقافت کی تشکیل۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس آئیڈیا کو عملی جامہ پہنانے سے پہلے اس کے فائدے اور نقصانات کا بغور جائزہ لیا جائے۔
بھارت ایکسپریس۔