ترکی کے صدررجب طیب اردغان مصرکے دورے پرہیں۔ اردغان کا یہ دورہ 11 سال بعد ہو رہا ہے۔ دوطرفہ مذاکرات کے ساتھ ساتھ اسرائیل اورحماس کے درمیان جنگ اس دورے کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ حماس اوراسرائیل کے درمیان جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان دوری مسلسل کم ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ اس معاملے پرایران اورسعودی ایک پلیٹ فارم پرآ گئے ہیں۔ ترک میڈیا کے مطابق اردغان کے دورے کا مقصد غزہ جنگ میں ہونے والی فلسطینیوں کی نسل کشی کوروکنے کے لئے ضروری آپشنزپرتبادلہ خیال کرنا ہے۔
قابل ذکرہے کہ تقریباً ایک دہائی کے بعد جولائی 2023 میں دونوں ممالک نے قاہرہ اورانقرہ میں اپنے سفارت خانے کھولے۔ 2013 میں مصر کے اس وقت کے وزیر دفاع عبدالفتاح السیسی نے اخوان المسلمون تنظیم کے صدرمحمد مرسی کا تختہ الٹ دیا تھا۔ مرسی کو ترکی کے قریب سمجھا جاتا تھا، جس کے بعد ترکی نے مصرسے اپنے تعلقات ختم کردیئے۔ سال 2021 میں دونوں ممالک نے تعلقات کی بحالی کے لئے پہل کی اورنومبر2022 میں قطرکے دارالحکومت دوحہ میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔
“The path to peace and economic development in our region lies with the establishment of a Palestinian state” https://t.co/zhB2FHje1s pic.twitter.com/Q7jH38r74N
— Presidency of the Republic of Türkiye (@trpresidency) February 13, 2024
فلسطینیوں کی نسل کشی پر تشویش
حماس اسرائیل جنگ نہ صرف خلیجی ممالک بلکہ پوری دنیا کے لئے باعث تشویش ہے۔ جہاں کچھ ممالک بحیرہ احمرمیں حوثیوں کی کارروائیوں کی وجہ سے تجارت متاثرہونے سے پریشان ہیں، وہیں کچھ اسرائیلی حملوں کی وجہ سے فلسطینیوں کے قتل عام سے پریشان ہیں۔ مسلم ممالک، اقوام متحدہ، اوآئی سی اورانسانی حقوق کی تمام تنظیمیں ابھی تک اسرائیل پرجنگ بندی کے لئے دباؤ نہیں ڈال سکیں۔ اردغان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم غزہ میں ہونے والے قتل عام کو روکنے کے لئے ہرممکن اقدام کریں گے۔ مسلم دنیا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی نظر اردغان کے دورے پرہے کیونکہ سعودی عرب اورایران کے بعد ترکی بھی خود کومسلم دنیا کا لیڈرثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
فلسطین حامی ہے ترکی
ترکی ہمیشہ سے فلسطین کی حمایت کرتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ استنبول میں حماس کی پولیٹیکل ونگ کے کئی لیڈران رہتے ہیں۔ غزہ پرحملے شروع ہونے کے بعد سے صدر رجب طیب اردوغان اسرائیل کے بڑے ناقدین میں سے ہیں۔ غزہ جنگ کو 131 دن گزرجانے کے بعد بھی جنگ رکنے کے آثارنظرنہیں آرہے ہیں۔ اس جنگ کی شروعات سے اب تک تقریباً 29 ہزارلوگوں کی موت ہوچکی ہے اورتقریباً ایک لاکھ زخمی ہیں۔ مہلوکین میں زیادہ تر بچے اور خواتین ہیں۔ مصرف اور قطر اس وقت امریکہ کے لائے گئے معاہدے کی ثالثی کر رہے ہیں۔ ترکی کے صدر بھی اس معاہدے کو نافذ کرانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔
بھارت ایکسپریس۔