ظہور حسین بٹ
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے کچھ نے کہا چہرا ترا
مورخ اینڈریو ہاورڈ امیریکن انسٹی ٹیوٹ آف انڈین اسٹڈیز (اے آئی آئی ایس) میں اپنی اردو کلاس کے دوران ابن انشاء کی اس مشہور غزل کو پڑھنے کے لمحات کو یاد کرتے ہوئے گویا ہیں کہ اے آئی آئی ایس کے تجربے نے دنیا دیکھنے کے ان کے نظریے کو کس طرح وسعت دی۔
وہ کہتے ہیں ’’اردو نے ایک خوبصورت زبان کے طور پر مجھے ہمیشہ متاثر کیا ہے، خواہ بات تحریر کی ہو یا تقریر کی۔میرے خیال میں خوبصورتی کی بہتر تفہیم ایک عالمگیر انسانی خواہش ہے۔‘‘
ہاورڈ نے اوہایو یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے کیا ہے۔ اس سے پیشتر انہوں نے اوہایو ویسلیان یونیورسٹی سے تاریخ میں بی اے کیا ۔ یہیں سے ان کی دلچسپی تاریخِ ہند ، نیز یہاں کی طرزِ زندگی اور ثقافت میں ہوئی۔
ہاورڈ ابھی ریاست وِسکونسِن کے شہر لاکراس میں واقع یونیورسٹی آف وِسکونسِن ۔لاکراس میں عالمی تاریخ کے استاد کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اردو زبان پر عبور حاصل کرنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ انکشاف کرتے ہیں ’’مجھے برصغیر کی تاریخ کے متعلق دستاویزات کو سمجھنے کی تمنا سے اردو سیکھنے کی ترغیب ملی۔ بصورت دیگران دستاویزات کو سمجھناممکن نہیں تھا۔‘‘
ہاورڈ کو ۲۰۲۰ءمیں اے آئی آئی ایس میں اردو زبان کو مجازی طور پر سیکھنے کے لیے امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے کریٹیکل لینگویج اسکالرشپ حاصل ہوئی۔ انہوں نے ۲۱۔۲۰۲۰ میں اردو کی باریکیوں کو سمجھنے کے لیے سی ایل ایس ریفریش پروگرام میں بھی شرکت کی۔ پیش خدمت ہیں ہاورڈ سے انٹرویو کے چند اقتباسات۔
براہ کرم ہمیں اپنے موجودہ کام کے بارے میں بتائیں۔
فی الحال میں جموں کشمیر میں برطانوی استعماریت پر ایک کتاب لکھنے میں مصروف ہوں جسے میں نے اپنے مقالہ ’’فکسنگ دی ہیپی ویلی: برٹش سینٹی مینٹلیٹی اینڈ دیئر انٹروینشن ان کشمیر ۱۹۲۵۔ ۱۸۸۵‘‘ سے اخذ کیا ہے۔ میں نے ابھی حال ہی میں ایک تحقیقی مقالہ شائع ہونے کے لیے بھیجا ہے جس میں میں نے جموں کشمیر میں برطانوی حکومت کی جانب سے سڑکوں اور ریل لائنوں کی تعمیر کا جائزہ لیا ہے۔ اس طرح کے بنیادی ڈھانچوں کے منصوبوں کی تعمیر کے پس پشت کارفرما اسباب و علل کی نشاندہی کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کیوں خطہ مکمل طور پر ریلوے لائن سے منسلک نہیں ہوسکا۔
بحیثیت مورخ کے آپ کی تحقیق میں اردو زبان کس طرح مددگار ثابت ہوئی ہے؟ بالخصوص جنوبی ایشیا کے متعلق تحقیقی کام میں اردو سے کیا فائدہ حاصل ہوا؟
اردو زبان سے بالواسطہ مجھے اپنی تحقیق میں مدد ملی کیوں کہ میں اردو مآخذ کو اپنی تحقیق کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب ہو سکا۔ ۲۰۲۲ءکے موسم گرما کے دوران میں نے نئی دہلی میں واقع نیشنل آرکائیوز آف انڈیا اور جموں میں واقع جموں کشمیر اسٹیٹ آرکائیوز میں تحقیقی کام انجام دیا۔ مجھے ان دونوں محافظ خانوں میں بے شمار اردو مآخذ جیسے خطوط، وصیت نامے، نوٹس اور کتابیں پڑھنے کو ملیں۔ ان کا تجزیہ میں اپنی کتاب میں پیش کررہا ہوں۔
میں اپنی کتاب کے سلسلے میں سری نگر کا ایک آخری تحقیقی دورہ کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں۔ یہاں میں امید کرتا ہوں کے مجھے اردو میں لکھے وہ نوٹس حاصل ہوں گے جن کو غالباً ڈوگرا مہاراجہ کے ان جاسوسوں نے لکھا جن کو انہوں نے انگریزوں کی نگرانی کے لیے تعینات کیا تھا۔ میں امید کرتا ہوں کہ اس طرح کے اردو کے دستاویزات سے میری کتاب کی قدر و قیمت دو بالا ہوجائے گی۔ مگر یہاں میں بتانا چاہوں گا کہ یہ سب قطعی ممکن نہیں ہوپاتا اگر میں نے اے آئی آئی ایس میں اردو نہ سیکھی ہوتی۔
کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ کسی خطے کی تاریخ اور اس کی ثقافت کا مطالعہ کرنے کے لیے اس خطے کی زبان کا علم ہونا بھی ضروری ہے؟
یقیناً! میں سمجھتا ہوں کہ زبان یا زبا نوں کی آموزش ضروری ہے ،خواہ سیکھنے کا یہ عمل تا حیات جاری رہے جیسا کہ میرے ساتھ ہے۔ اگر زبان پر عبور حاصل کر بھی لیا جائے تو بھی کسی خطے کی تاریخ اور ثقافت کے بارے میں جاننے کے اور بھی بہت سے طریقے ہیں۔ لیکن اگر آپ کوئی زبان نہیں سیکھ رہے ہیں تو گویا آپ علم کے تمام دروازے بند کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں زبان سیکھنے کا عمل کسی خطے کی تاریخ کے ادراک کا بہترین ذریعہ ہے کیوں کہ ہر لفظ کی اپنی ایک متحرک تاریخ ہوتی ہے۔
تاریخ ِ ہند کے بارے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وسیع و عریض ملک میں بہت سی زبانیں ہیں۔ یہ سبھی خطوں کےماضی کو سمجھنے کے کئی دروازے کھول سکتی ہیں۔ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو وہ پوری زندگی اس متحرک خطے کے مطالعہ میں صرف کر سکتا ہے جیسا کہ میرا ارادہ ہے۔
اے آئی آئی ایس میں بحیثیت کریٹیکل لینگویج فیلو آپ کا تجربہ کیسا رہا؟
اے آئی آئی ایس میں ایک کریٹیکل لینگویج فیلو کے طور پر میرا تجربہ ایک مورخ اور آج اس خطے کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے کسی شخص کی حیثیت سے میری ترقی میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ کسی دوسرے خطے کے متعلق صرف کتابیں پڑھ کر ہی بہت کچھ علم حاصل کیا جا سکتا ہے مگر بہر کیف عملی تجربہ کی تشنگی تو باقی رہ جاتی ہے۔ اے آئی آئی ایس میں میرے اساتذہ اور میرے ہم جماعت احمر نے مجھے معاصرہند کے متعلق کافی جانکاری دی جس سے میرے نظریہ میں وسعت پیدا ہوئی۔
اس تجربے نے مجھے ملک کی متحرک تاریخ کے بارے میں اردو میں بات کرنے کا ہنر عطا کیا جو ایک مورخ کے لیے واقعتاً ایک بہت بڑا اثاثہ ہے۔ سیکھنے کے عمل کے دوران مجھے اس امر کا بہتر طور پر اندازہ ہوا کہ آج کی موجودہ نسل اپنی تاریخ کو کس طرح یاد کرتی ہے۔ احمر نے تو مجھے بالی ووڈ کی کلاسیکی فلموں اور خاص طور پر تاریخی فلموں پر ایک’ کریش کورس ‘بھی دیا۔ اے آئی آئی ایس کے بغیر یہ تجربہ ممکن نہیں تھا۔
حالیہ برسوں میں اردو کے طلبہ کو ٹیکنالوجی سے جوڑنے پر کافی زور دیا گیا۔ کیا آپ ہمیں اس سلسلہ میں ہو رہی حالیہ پیش رفت کے بارے میں کچھ بتا سکتے ہیں؟
میں نے اس کے بعد سے سی ایل ایس ریفریش پروگرام میں حصہ لیا جس میں سی ایل ایس کے سابق طلبہ کو ان کے سابقہ اے آئی آئی ایس فیض یافتگان سے منسلک ایک مجازی ریفریشر کورس کرنے کے لیے ملایا گیا۔ مجھے اے آئی آئی ایس لکھنؤ کے اپنے سابق اساتذہ اور خاص طور پر یونس صاحب سے مل کر بہت اچھا لگا۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ یہاں میرے اساتذہ مجھ سے اختلافِ مطلع کے باوجود ملنے کو تیار رہتے ہیں۔ یہ میرے لیے ایک اہم موقع تھا کہ جو کچھ میں نے سیکھا ہے اسے میں مزید مستحکم کرسکوں اوراپنے اردو سیکھنے کے عمل کو جاری رکھ سکوں جس کی وجہ سے مجھے اپنی تحقیقی اور مقالہ میں بہت مدد ملی۔
کسی دستاویز کا ترجمہ کرنے کے دوران اگر کبھی مجھے کوئی دشواری ہوتی تو میں کلاس کے اپنے اساتذہ سے رجوع کرتا جو یقینی طور پر ایک بیش بہا مرجع تھے۔ میں اپنے کمپیوٹر کی اسکرین کا اشتراک کر کے اساتذہ کو اپنا ترجمہ دکھایا کرتا کہ وہ مشکل نستعلیق خط کو پڑھنے میں میری مدد کریں۔ ٹیکنالوجی کا اردو سیکھنے لیے یہ مثبت استعمال بہت خوش آئند ہے۔ میں ریفریش کورس میں آئندہ بھی شرکت کرنا جاری رکھوں گا۔
اردو سیکھنے کے خواہش مند امریکی طلبہ کو آپ کیا کوئی مشورہ دینا چاہیں گے؟
ان امریکی طلبہ کے لیے جو اردو زبان سیکھنے کے خواہش مند ہیں ان کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اس کام میں دل و جان سے محنت کریں۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے مجھے سب سے اچھا فارمولا جُھمپا لہری کی کتاب ’’ان ادر ورڈس‘‘ میں ملا جس میں انہوں اپنے اطالوی زبان سیکھنے کا تجربہ بیان کیا ہے۔ لہری نے اٹلی ہجرت کی اور پھر انگریزی سے بالکل ناطہ توڑ کر صرف اور صرف اطالوی زبان میں بولنا، پڑھنا اور لکھنا شروع کر دیا۔ جب لہری نے ایسا کیا اس وقت وہ انگریزی زبان کی کامیاب ترین مصنفہ تھیں۔ پھر بھی آپ کو اگر لگتا ہے کہ آپ کے لیے ایسا قدم اٹھانا بہت مشکل کام ہے تو پھر ذرا سوچیے لہری کے بارے میں جن کی روزی روٹی ہی انگریزی زبان پر منحصر تھی تو ان کے لیے یہ کس قدر دشوار گزار مرحلہ رہا ہوگا! اپنی کتاب میں لہری نے زبان سیکھنے کے عمل کو ساحل سے سمندر میں غوطہ لگانے سے تشبیہ دی ہے۔
تو جب تک آپ زمین پر قدموں کے ساتھ جمے رہیں گے اس وقت تک آپ کو تیرنا نہیں آئے گا! لہٰذا ضروری ہے کہ آپ سمندر میں غوطہ لگائیں اور ہاتھ پیر ماریں تبھی آپ کچھ سیکھ پائیں گے۔ تیرنے کے عمل کو قبول کریں حالانکہ شروع شروع میں ضرور آپ کو پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑے گا مگر پھر آپ کی راہیں آسان ہوتی چلی جائیں گی اور ساحل پر کھڑے ہو کر ہاتھ پیر چلانے کی بجائے سمندر میں ہاتھ پیر مارنا تو یقیناً اچھا عمل ہے۔
اردو کورس کی ایک کلاس کے دوران میں نے اپنے اندر تحریک پیدا کرنے کی غرض سے لہری کی کتاب کا ایک سبق پڑھا اور پھر کلاس سے قبل ہر ایک سبق کا خلاصہ اردو میں لکھا۔ میرا مشورہ ہر اس شخص کے لیے جو کہ کوئی بھی زبان سیکھ رہا ہو یہی ہے کہ وہ میرے عمل کو روزانہ دوہرائے۔ اس عمل سے نہ صرف میرے اندر تحریک پیدا ہوئی بلکہ مجھے ہدف کا بھی اندازہ ہوا ۔ اور یہ بھی علم ہوا کہ مجھے اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔
بشکریہ اسپَین میگزین، شعبہ عوامی سفارت کاری، پریس آفس، امریکی سفارت خانہ، نئی دہلی
-بھارت ایکسپریس