ایرانی میڈیا نے تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کے قتل کی کارروائی سے متعلق بعض تفصیلات کا انکشاف کیا ہے۔ایرانی میڈیا کے مطابق اسماعیل ہنیہ کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب ایران کے وقت کے مطابق 2 بجے ہلاک کیا گیا۔ وہ تہران میں سینئر فوجی جنگجوؤں کے خصوصی مرکز میں مقیم تھے۔ایرانی خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ “ہنیہ کی قیام گاہ کو فضا سے داغے جانے والے ایک میزائل کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اس دہشت گرد کارروائی کی تفصیلات جاننے کے لیے مزید تحقیقات کی جا رہی ہیں”۔ایرانی میڈیا کے مطابق تہران میں حماس کے سربراہ کی قیام گاہ کو نشانہ بنانے والا میزائل ایران سے نہیں بلکہ ایک دوسرے ملک سے داغا گیا۔ یہ بات ایک ایرانی ذریعے کے حوالے سے نام ظاہر کیے بغیر بتائی گئی۔اس سے قبل ایرانی پاسداران انقلاب کی جانب سے اس کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں بتایا گیا کہ “تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کی قیام گاہ پر بم باری کی گئی”۔ اس کے نتیجے میں ہنیہ اور ان کے ایک ذاتی محافظ ہلاک ہو گئے۔ پاسداران کے مطابق واقعے کی تحقیقات کی جا رہی ہیں اور نتائج کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔
اسماعیل ہنیہ کون تھے؟
واضح رہے کہ اسماعیل ہنیہ ایک ایسا فلسطینی چہرہ تھے جو سفارتی سطح پر انتہائی مشکل صورت حال میں بھی سخت سے سخت ماحول میں بھی اپنی بات پوری شدت کے ساتھ کہنے کی شہرت رکھتے تھے۔غزہ میں جاری اسرائیلی جنگ کے دوران ان کے تین بیٹے بھی اسرائیلی بمباری میں جاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن ان کی وابستگی اور بیانیہ اسی طرح مضبوطی سے جاری رہا جس طرح اس سے پہلے وہ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو رہے تھے۔ انہیں بہت سے سفارت کاروں نے ہمیشہ بڑے تحمل اور مہارت کے ساتھ اپنا موقف بیان کرتے اور اس پر قائم رہتے دیکھا ۔ دوسرے کئی رہنماؤں کے مقابلے میں وہ زیادہ متحمل اور سفارتی انداز و اطوار میں ڈھلے ہوئے تھے۔
ان کی پیدائش ایک پناہ گزین کیمپ میں 1962 کو ہوئی تھی ، یہ غزہ میں قائم الشاطی پناہ گزین کیمپ تھا۔ 2017 میں انہوں نے خالد مشعل کی جگہ اپنی موجودہ ذمہ داریاں سنبھالی تھیں۔اس سے قبل 2006 کے فلسطین کے پارلیمانی انتخابات میں حماس کی انتخابی جیت کے بعد فلسطین کے وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے۔ اس لیے تب سے ان کی شہرت ایک مدبر اور محنتی سیاستدان کے طور پر سامنے آئی۔
موجودہ ذمہ داریاں پر 2017 میں فائز ہوئے توان کا نام اور چہرہ اجنبی نہ تھا۔ حماس کی اکثریت کے باوجود اس کا فلسطینی اقتدار میں آنا کافی مشکل سے ہضم ہونے والی بات تھی۔ بیرونی دنیا میں بھی اور فلسطین کے اندر بھی مشکلات بڑھائی گئیں۔ اس لیے فتح اور حماس کا حماس کی اکثریت کے بعد اختیار کردہ پاور شیئرنگ جاری نہ رہ سکی۔ تاہم اسماعیل ھنیہ اپنی سفارتی و سیاسی زندگی میں ایک عملیت پسند سیاستدان اور سفارت کار کے طور پر جانے گئے۔ اس لیے پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہونے والے ھنیہ نے زندگی کئی قیمتی سال جلاوطنی اور مہاجرت میں گذارے ۔ حتیٰ کہ فلسطینیوں کے حق واپسی کی جنگ لڑنے والے اس فلسطینی رہنما کی رحلت بھی غریب الوطنی میں ہوئی۔ اپنے طالبعلمی کے زمانے میں اسماعیل ھنیہ اخوان المسلمون کے طلبہ کے ونگ میں شامل رہے۔ ان کا یہ غزہ یونیورسٹی کا دور تھا ۔
سات اکتوبر کی اسرائیل حماس جنگ شروع ہوئی تو اسرائیلی فوج کو مخاطب کر کے کہا تھا’ تم خود کو غزہ کی ریت میں ڈوبتے ہوئے پاؤ گے۔’ اسرائیل اب تک دس ماہ کی جنگ کے دوران 39 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو ہلاک کر چکا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی اکثریت سوائے اسرائیل کے بڑے اتحادی ملکوں کے ان ہلاکتوں کو نسل کشی قرار دیتے ہیں۔ بین الاقوامی عدالت انصاف بھی جنوبی افریقہ کی درخواست پر اسی نتیجے کے قریب پہنچ چکی ہے۔
اسرائیل حماس کے رہنماؤں کو دہشت گرد قرار دیتا ہے جبکہ ھنیہ، مشعل اور دیگر کو اس تنظیم کی ڈور ہلانے والا کہتا رہا ہے، لیکن یہ کہنا ابھی تک مشکل ہے کہ حماس کے عسکری ونگ نے سات اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ کیا تو اسماعیل ھنیہ اس حملے سے پہلے آگاہ تھے یا نہیں۔ کیونکہ عسکری ونگ نے یہ حملہ اس قدر خفیہ رکھا تھا کہ کہ حماس کے کئی رہنماؤں کو بھی اس کی خبر نہیں تھی۔اس دہائی کے دوران اسماعیل ھنیہ حماس کے اہم رہنما کے طور پر رہے، انہوں نے سفارتی میدان میں کئی اہم فیصلے کیے۔ بہت سے چیلنجوں اور مشکلات کا سامنا کیا۔ حماس کو عوامی سطح پر مضبوط کیا ، عوامی حمایت میں اضافہ کرنے میں کامیاب رہے۔ اسرائیل کے لیے یہ سب کچھ ناقابل برداشت تھا۔ اسے یہ آئیڈیا بہت لگا کہ غزہ میں جنگ جاری رکھنے اور اس کا پھیلاؤ دوسرے ملکوں میں کرنے سے آسان ہے کہ حماس کی قیادت کو مختلف مقامات اور ملکوں میں ہدف بنایا جائے۔
بھارت ایکسپریس۔