Bharat Express

Biden says ‘hang in there, we’re coming’ to hostages: اسرائیل نے پھر سے یواین جنرل سکریٹری کے استعفیٰ کا کیا مطالبہ،امریکہ نے یرغمالیوں سے کہا: آپ وہیں ٹھہرو،ہم آرہے ہیں

حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے خاندانوں نےآج تل ابیب سے یروشلم تک پانچ روزہ مارچ کا آغاز کیا ہے تاکہ حکومت ان کی رہائی کے لیے مزید اقدامات کرے۔وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے مزید کچھ نہ کرنے پر کچھ رشتہ داروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں۔

اسرائیل حماس جنگ میں عام شہریوں کے قتل عام کے بیچ اسرائیل کی جانب سے چوری اور سینا جوری جیسا سلوک روا رکھا جارہا ہے  اور اس کی تازہ ترین مثال اسرائیل وزیرخارجہ کا وہ بیان ہے جس میں ایک بار پھر اقوام متحدہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔اسرائیل کے وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کے سربراہ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیاہے۔اسرائیل کے وزیر خارجہ ایلی کوہن نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس سے یہ کہتے ہوئے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس تنظیم کی سربراہی کے لیے موزوں نہیں ہیں۔کوہن نے جنیوا میں اقوام متحدہ کی عمارت کے اندر ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ گوٹیرس اقوام متحدہ کی سربراہی کے لائق نہیں ہیں۔ گوٹیرس نے خطے میں کسی امن عمل کو فروغ نہیں دیا۔تمام آزاد اقوام کی طرح گوٹیرس کو بھی صاف اور بلند آواز میں کہنا چاہیے: ‘غزہ کو حماس سے آزاد کرو’۔

ٹائمز آف اسرائیل کی خبر کے مطابق، اسرائیلی وزیر نے انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔کوہن نے مطالبہ کیا کہ آئی سی آر سی غزہ میں حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کو محفوظ بنانے کے لیے “تمام چینلز کے ذریعے کام کرے۔انہوں نے کہا کہ ہم توقع کرتے ہیں کہ ریڈ کراس اس مسئلے کو تنظیم کی ترجیحی فہرست میں سرفہرست رکھے گا، تمام دباؤ کا استعمال کرے گا، اور اس وقت تک آرام نہیں کرے گا جب تک کہ وہ تمام یرغمالیوں سے ملاقات نہ کرے، ان کی حالت کا جائزہ لے، اور اس بات کو یقینی بنائے کہ انہیں وہ طبی دیکھ بھال مل رہی ہے جس کی انہیں ضرورت ہے۔

وہیں دوسری طرف اقوام متحدہ میں اسرائیل کے نمائندے گیلاد اردن نے گزشتہ ماہ انتونیو گوٹیریس سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کیا تھا اور یہ اس وقت کیا تھا جب اقوام متحدہ کے سربراہ نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر توقف کی اپیل کی تھی اور کہا تھا کہ یہ بھی تسلیم کرنا ضروری ہے کہ حماس کے حملے کسی خلا میں نہیں ہوئے۔ 56 سال  سے فلسطینی عوام کو دم گھٹنے والے اسرائیلی  قبضے کا سامنا ہے۔اردن نے ایک پریس بریفنگ میں کہا تھاکہ گوٹیرس “تمام اخلاقیات اور غیر جانبداری کھو چکے ہیں۔جب آپ یہ خوفناک الفاظ کہتے ہیں کہ یہ گھناؤنے حملے کسی خلا میں نہیں ہوئے، تو آپ دہشت گردی کو برداشت کر رہے ہیں، اور میں سمجھتا ہوں کہ سیکرٹری جنرل کویہ بات کہنے کے ساتھ ہی  مستعفی ہو جانا چاہیے۔”

وہیں رہو ، ہم آ رہے ہیں:بائیڈن

امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا کہ ہم یرغمالیوں کی بازیابی کیلئے کافی سرگرم ہیں اور بہت جلد مثبت نتیجہ نکلنے والا ہے ۔اس دوران صدرجو بائیڈن سے جب پوچھا گیا کہ کیا ان کے پاس غزہ میں یرغمال بنائے گئے افراد کے اہل خانہ کے لیے کوئی پیغام ہے تو انہوں نے کہا کہ آپ وہیں ٹھہرو، ہم آ رہے ہیں۔امریکی صدر اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے ملاقات کے بعد وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کر رہے تھے۔بائیڈن نے کہا کہ وہ حماس کے زیر حراست یرغمالیوں کی رہائی کے لیے روزانہ بات چیت میں مصروف ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں ہر  دن ملوث لوگوں سے بات کرتا رہا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ یہ ہونے والا ہے، لیکن میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔

غزہ کے شہیدوں کو اقوام متحدہ میں خراج

ادھر اقوام متحدہ کے سربراہ انٹونیو گوتیرس نے 7 اکتوبر سے غزہ میں ہلاک ہونے والے 100 سے زائد عملے کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرکے انہیں خراج پیش کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے جھنڈے بھی پوری دنیا میں اقوام متحدہ کی عمارتوں پر نصف جھکا دئے گئے۔

اسرائیل میں یرغمالیوں کے خاندان کا زبردست احتجاج

حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے اسرائیلیوں کے خاندانوں نےآج تل ابیب سے یروشلم تک پانچ روزہ مارچ کا آغاز کیا ہے تاکہ حکومت ان کی رہائی کے لیے مزید اقدامات کرے۔وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو یرغمالیوں کی رہائی کو محفوظ بنانے کے لیے مزید کچھ نہ کرنے پر کچھ رشتہ داروں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بن رہے ہیں، یہاں تک کہ جب اسرائیلی فوجیں غزہ کی پٹی میں مزید آگے بڑھ رہی ہیں اور اس علاقے پر اسرائیلی فضائیہ کی بمباری ہورہی ہے۔

شیلی شیم توو نامی خاتون جس کے 21 سالہ بیٹے کو حماس نے یرغمال بنا رکھا ہے کہا کہ میں بنجمن نیتن یاہو اور کابینہ سے مطالبہ کرتا ہوں کہ ہمیں جوابات اور اقدامات فراہم کریں۔ اس نے مارچ کے آغاز پر حکومت کو ایک جذباتی التجا میں مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ اپ کہاں ہیں؟ اپ کہاں ہیں؟کیا آپ ہماری بات سن رہے ہیں ؟ ہمارے خدشات کو محسوس کررہے ہیں؟ خیال کیا جاتا ہے کہ حماس کے جنگجوؤں نے 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر اپنے حملے کے دوران تقریباً 240 یرغمالیوں کو یرغمال بنایا تھا، ان قیدیوں کی عمریں نو ماہ سے لے کر 85 سال کے درمیان تھیں۔

قریب72 سالہ یرغمالی ادینہ موشے کے بھتیجے امیت زچ نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ ہم اچھے ہاتھوں میں ہیں۔ ہمیں ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ہمیں کافی معلومات ملتی ہیں۔ ہم اندھیرے میں ڈوب گئے ہیں یا پھر ہمیں اندھیرے میں رکھا جارہا ہے۔ ہم جوابات چاہتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ میرے پاس کوئی حل نہیں ہے، لیکن حل نکالنا میرا کام نہیں ہے۔ یہ میرا کام ہے کہ میں اپنے خاندان کی  واپسی کا مطالبہ کروں۔اس دوران اسیروں کی تصویریں اٹھائے ہوئےہجوم نے نعرہ لگایا: ابھی انہیں گھر لے آؤ۔یاد رہے کہ حماس اب تک چار مغویوں کو رہا کر چکا ہے۔اور پانچ دنوں کی جنگ بندی کے بدلے 72یرغمالیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے۔

بھارت ایکسپریس۔

Also Read